پوٹن اوران کے حامیوں کو ناکام بنانے کے لیے مزید اقدامات

فائل فوٹو

امریکہ نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کریوکرین کے خلاف روس کی بلا اشتعال اور بلا جواز جنگ کے نتائج بھگتنے کے لیے صدر پوٹن اوران کے حامیوں کے خلاف اضافی اقدامات اٹھائے ہیں۔

جی سیون ملکوں کے ساتھ مل کر امریکی محکمۂ خزانہ نے 27 جون کو روس کے دفاعی صنعتی مراکز کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا جس میں روسٹیک اور 29 روسی افراد شامل ہیں۔

امریکی محکمۂ خزانہ کے مطابق یہ مراکز روس کے دفاعی، صنعتی، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں

کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا کہ "روس کی دفاعی صنعت کو نشانہ بنانے سے پوٹن کی صلاحیتوں میں کمی آئے گی اور یوکرین کے خلاف ان کی جنگ میں مزید رکاوٹ پیدا ہوگی، جو پہلے ہی کمزور حوصلے، ٹوٹی ہوئی سپلائی چین اور لاجسٹک ناکامیوں سے دوچار ہے۔"

محکمۂ خزانہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور جاپان کے ساتھ مل کر روسی سونے کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی ہے، جو توانائی کے بعد روسی فیڈریشن کی سب سے بڑی برآمدات میں سے ایک ہے۔

محکمۂ خزانہ کے یہ اقدامات محکمۂ خارجہ کے ساتھ مل کر کیے گئے جس نے انتظامی حکم نامے 14024 کے تحت 45 اداروں اور 29 افراد پر پابندیاں عائد کیں۔

ان نامزدگیوں میں روسی فوجی یونٹس شامل ہیں جو یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مستند طور پرملوث ہیں، ان میں سرسری سماعت کے بعد پھانسی، غیرمسلح شہریوں کو مارنا اورگھروں کو تباہ کرنا شامل ہے۔

اس کے علاوہ محکمۂ خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے روسی فیڈریشن کی فیڈرل سیکیورٹی سروس، ایف ایس بی کو نامزد کیا، یہ سروس ایسے کیمپ چلاتی ہے جہاں سے یوکرین کے شہریوں کو زبردستی روس کے زیرکنٹرول علاقوں میں یا روس منتقل کیا جاتا ہے۔ ان یوکرینی شہریوں کو ایف ایس بی طویل اورکڑی پوچھ گچھ کا نشانہ بناتی ہے۔

محکمۂ خارجہ نے روسی فیڈریشن کے دفاع سے متعلق متعدد اداروں کو بھی نامزد کیا، یوکرین کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کو زک پہنچانے یا اس کی خلاف ورزی کرنے پر511 روسی فوجی افسران پر ویزے کی پابندیاں عائد کیں، ساتھ ہی اختلاف رائےکو کچلنے والے 18 روسی شہریوں پر ویزے کی پابندیاں عائد کیں۔

امریکہ اور اس کے شراکت داروں کی طرف سے گزشتہ ماہ میں روس پرعائد پابندیوں اوربرآمدی کنٹرول کا ڈرامائی اثر ہو چکا ہے۔ سینکڑوں غیرملکی کمپنیاں ملک چھوڑچکی ہیں۔ روس کی دنیا بھر سے اشیا کی درآمد میں 40 فی صد کمی آئی ہے۔ روسی فیکٹریاں پیداوار کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ مہنگائی 20فی صد سے زیادہ ہو چکی ہے اورسو سال میں پہلی بارروس اپنے قومی قرضوں کا خود نا دہندہ ہوا ہے۔

جیسا کہ وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ اگرروس اپنی پسند کی جنگ جاری رکھتا ہے تو امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ روس پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے مزید اقدامات جاری رکھے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**