وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ امریکہ کی توجہ بین الاقوامی نظام کے لیے سب سے سنگین طویل المدتی چیلنج پر بدستور مرکوز ہے جو کہ چین ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ صدر شی کے ماتحت حکمران چینی کمیونسٹ پارٹی اندرون ملک زیادہ استحصالی اور بیرون ملک زیادہ جارح ہو گئی ہے۔
امریکہ عوامی جمہوریہ چین پر انحصار نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا راستہ بدلے گا، اس کے بجائے بائیڈن انتظامیہ نے ایک حکمتِ عملی تیارکی جس کا خلاصہ تین الفاظ میں کیا جا سکتا ہے- "سرمایہ کاری، صف بندی، مسابقت"۔
بائیڈن انتظامیہ امریکی اقتصادی اور تیکنیکی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے اپنی صنعتی حکمتِ عملی کے مطابق سرمایہ کاری کر رہی ہے جس سے امریکی معیشت اور سپلائی چینز کو مزید لچکدار اور مسابقت کے قابل بنایا جا رہا ہے۔
حکمت عملی کا دوسرا حصہ امریکہ کے اتحاد کے نیٹ ورک کو دوبارہ متحرک کرنا اور بین الاقوامی اداروں سے رابطوں کو دوبارہ استوار کرنا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی کا ایک اور شعبہ انسانی حقوق ہے۔
انہوں نے کہا کہ "امریکہ سنکیانگ کے علاقے میں ہونے والی نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم کے خلاف دنیا بھر کے ممالک اور لوگوں کے ساتھ ہم آوازہے۔ . . .ہم تبت کے ساتھ کھڑے ہیں، جہاں حکام تبتیوں اور ان کی ثقافت، زبان اور مذہبی روایات کے خلاف وحشیانہ مہم چلا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ میں، جہاں چینی کمیونسٹ پارٹی نے قومی سلامتی کی آڑ میں سخت جمہوریت مخالف اقدامات نافذ کیے ہیں۔
وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہماری حکمتِ عملی کا تیسراعنصر اہم شعبوں میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیجنگ اپنی عسکری ایجاد و اختراع کو آگے بڑھانے اور نگرانی کی موجودہ صلاحیت کو اور زیادہ بڑھانے کے لیے ہماری معیشتوں کے کھلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جاسوسی، ہیک کرنے، ٹیکنالوجی چوری کرنے کے میں مسلسل سرگرم عمل ہے۔ لہذا اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جب جدت اور اختراع کا اگلا اسٹیج امریکہ اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی طرف سے شروع کیا جائے توہم اپنی تخلیقی حکمت پر نقب زنی یا اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوششوں سے بھی خود کو محفوظ رکھنے کا جتن کریں گے۔
وزیر خارجہ بلنکن نے تائیوان کے بارے میں کہا کہ امریکہ اپنی "ایک چین" پالیسی پر قائم ہے جس کی رہنمائی تائیوان ریلیشنز ایکٹ، تین مشترکہ اعلامیے، چھ یقین دہانیوں کی یادداشتوں سے ہوتی ہے۔ ہم دونوں طرف سے موجودہ حالت میں کسی بھی فریق کی جانب سے یک طرفہ طور پرتبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتے، مگر ہم توقع کرتے ہیں کہ آبنائے کے دونوں جانب اختلافات پرامن طریقے سے حل کیے جائیں گے۔
وزیر خارجہ بلنکن نے اعلان کیا کہ ہم اعتماد کے ساتھ مسابقت کریں گے؛ ہم [چین کے ساتھ] جہاں بھی ہو سکے تعاون کریں گے۔ جہاں ضروری ہوا ہم وہاں مقابلہ کریں گے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہماری عظیم قومیں پرامن طور پر ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، اور ایک ساتھ مل کر انسانی ترقی میں اپنا حصّہ نہیں ڈال سکتیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**