بدعنوانی کی سب سے آسان تعریف کے مطابق سونپے گئے اختیار کا غلط استعمال ہے جو مستحکم، محفوظ اور فعال معاشروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اس نقصان کو کم کرنے میں مدد دینے کے لیے 2003 میں بدعنوانی کے خلاف کنونشن منظور کیا۔ یہ انسدادِ بدعنوانی کا ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جس کی 187 ریاستوں نے توثیق کی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدعنوانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن کی 10ویں کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’’بدعنوانی، اچھی حکمرانی، احتساب اور شفافیت کی جدوجہد کے لیے خطرہ ہے۔ یہ تمام عوامل ہماری قومی سلامتی اور ہمارے شہریوں کے لیےخدمات انجام دینے کے لیے اہم ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’بدعنوانی، عدم مساوات اور سیاسی تقسیم کو بڑھاتی ہے۔ بدعنوانی وبائی امراض سے لے کر قدرتی آفات تک کے بحرانوں کا مقابلہ کرنے میں ہمارے ردِعمل کو کمزور کردیتی ہے۔
چوری ہونے والے ہر ڈالر کی قدر وہ ایک ڈالر ہے جسے ہم اپنے اسکولوں یا اسپتالوں، اپنے کاروبار یا اپنی سرکاری پنشن کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’بدعنوانی کے نتیجے میں شہریوں کا حکومت پر اعتماد اور باہمی اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی ہماری سیاست اور ہماری کمیونٹیز کو تقسیم کرتی ہے، جرائم اور تنازعات کو بڑھاتی ہے اور بدعنوانی ان ممالک اورکرداروں کا ہتھیار بن جاتی ہے جو ہماری سلامتی، ہماری معیشتوں، اور ہمارے سیاسی نظام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ بدعنوانی کمزور ترین افراد کے لیے سنگین نتائج کی حامل ہے۔
یہ کمزور وہ لوگ ہیں جنہیں ہماری مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن جو اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ چاہے وہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کر لیں ان کے خلاف نظام دھاندلی کا شکار ہے۔ بہت سی وجوہات میں سے یہ ایک ہے جس کے باعث امریکہ نے انسدادِِ بدعنوانی کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا ہے۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ یہ پالیسی چار ستونوں پر قائم ہے۔
سب سے پہلے تو صدر بائیڈن نے ایک صدارتی اعلان جاری کیا ہے جو وزیرِ خارجہ بلنکن کے اس اختیار کو بڑھا دے گا کہ وہ ایسے افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دیں جو بدعنوانی کو فروغ دیتے ہوں۔
اس کے علاوہ امریکہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے 252 ملین ڈالر کی غیر ملکی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ خاص طور پر ان شعبوں میں مالی شفافیت اور سالمیت کو فروغ دیتا رہے گا، جہاں بدعنوانی کا خطرہ زیادہ ہے۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’حتمی طور پر ہماری انتظامیہ قانون سازی کی تجاویز کا ایک مجموعہ تیار کر رہی ہے جو انسدادِ بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ویزا حکام کو مضبوط کرے گا۔‘‘
بدعنوانی کینسر کی طرح ہے لیکن یہ قابل علاج کینسر ہے۔ بدعنوانی کے خلاف کنونشن نے ہمیں ایک ایسا لائحہ عمل دیا ہے جس کی ہمیں بد عنوانی کے قومی اور بین الاقوامی خطرے سے نمٹنے کے لیے ضرورت ہے۔
اب اس کا دارومدار ہم پر ہے کہ ہم اگلے 20 سالوں کو مزید منصفانہ، جواب دہ اور شفاف بنا ئیں۔ ایسا کر تے ہوئے ہم تمام لوگوں کی خوشحالی، وقاراور انسانی حقوق میں پیش رفت کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور دنیا بھر میں امن اور سلامتی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔