نسل کشی تمام جرائم سے بڑا جرم

فائل فوٹو

بوسنیائی جنگ 1992 سے 1995 تک جاری رہی۔ بوسنیائی سرب بڑے نسلی گروہوں میں سے ایک ہیں اور ان کا تعلق سابقہ ملک یوگوسلاویہ سے تھا۔

یہی بوسنیائی سرب نسلی بنیادوں پر رپبلیکا سرپسکا کے قیام کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے منتخب کردہ علاقے کے مرکز میں سربرینیتسا کا علاقہ تھا جہاں تاریخی طور پر بوسنیائی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔

بوسنیائی سرب قوم پرستوں نے تین سال تک سریبرینتسا کی مسلمان بوسنیائی آبادی کو نشانہ بنایا اور انہیں دہشت زدہ کیا۔

بالآخر جنگ کے اختتام کے قریب رپبلیکا سرپسکا بوسنیائی سرب فوج کے دستے جنرل راتکو میلادچ کی کمان میں محصورعلاقے سریبرینتسا میں داخل ہو گئے جو اقوامِ متحدہ کے تحفظ کے تحت ایک ’’محفوظ علاقہ‘‘ تھا۔ سربیا کے فوجیوں نے آس پاس کے دیہات کی آبادی کو حراست میں لے لیا۔

ان میں سینکڑوں پناہ گزین بھی شامل تھے۔ انہوں نے خواتین اور چھوٹے بچوں کو الگ کیا اور پھر پندرہ سال سے زیادہ عمر کے تمام مردوں کو منظم طریقے سے قتل کر دیا۔

سن 1995 میں 11 سے 31 جولائی کے درمیان انہوں نے سات سے آٹھ ہزار نہتے مردوں اور لڑکوں کا قتلِ عام کیا۔

اقوامِ متحدہ کے 1948کےجینو سائیڈ کنونشن کے مطابق نسل کشی سے مراد ’’ کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر ختم کرنے کے ارادے سے کی جانے والی کارروائی ہے۔

سریبرینتسا اور اس کے گردونواح میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی2004 میں جاری رپورٹ کے مطابق، سریبرینیتسا میں ایسا ہی ہوا۔

اس وقت رپبلیکا سرپسکا کی حکومت نے سرکاری سطح پر معافی نامہ جاری کیا۔

رپبلیکا سرپسکا بوسنیا ہرزیگووینا کے اندر ایک خود مختار علاقہ ہے۔ تاہم 14 برس بعد رپبلیکا سرپسکا کی قومی اسمبلی نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ متاثرین میں سے متعدد افراد اب بھی زندہ ہیں۔ سریبرینتسامیں نسل کشی سے انکار اور ان کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کی تعریف و ستائش آج بھی اس خطے میں عام ہے۔

بوسنیا ہرزیگوینا میں امریکی سفیر مائیکل مرفی نے سریبرینتسا قتل عام کی اٹھائیسویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام متاثرین، زندہ بچ جانے والوں اور اپنے پیاروں کے لیے غمزدہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

سفیر مرفی نے کہا کہ ’’ سربرینیتسا میں ہونے والی نسل کشی سے متعلق حقائق کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔

سفیر مرفی کا مزید کہنا ہے کہ ’’امریکہ بوسنیا ہرزیگوینا کے سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سریبرینیتسا میں نسل کشی کے متاثرین کی یاد میں اور بوسنیا اور ہرزیگووینا کے مستقبل کے لیے سچائی کا احترام کریں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس بات کا انحصار اس بات کو تسلیم کرنے کی صلاحیت پر ہے کہ سریبرینیتسا میں نسل کشی کی کارروائیاں ہوئی ہیں اور1992 سے 1995 تک ہونے والی جنگ اور متعدد دوسرے غلط اقدامات کو درست کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**