شمالی عراق میں آئی ایس آئی ایس یا داعش کو یزیدی برادری کے خلاف نسل کشی کی مہم چلاتے ہوئے نو برس مکمل ہو چکے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تین اگست کو ایک تحریری بیان میں کہا کہ ’’آج ہم داعش کے جبر کے متاثرین کو یاد کرتے ہیں اور زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں جنہیں داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھوں یزیدی نسل کشی کا سامنا تھا۔‘‘
داعش نے 2014 تک شام اور عراق کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی سال اگست میں جب اس کے جنگجوؤں نے سنجار اور کمار کے قصبوں کو فتح کیا تو داعش نے لوگوں اور ان کی ثقافت کو تباہ کرنے کے لیے منظم طریقے سے یزیدیوں کا قتل، انہیں غلام بنانے اور اغوا کرنے کا آغاز کیا۔
ہزاروں افراد کو قتل یا اغوا کیا گیا- لڑکوں کو چائلڈ سولجر بننے پر مجبور کیا گیا۔ خواتین اور لڑکیوں کو جنسی غلامی کے لیے فروخت کیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے توجہ دلائی کہ ’’ ہلاک ہونے والے افراد کی اصل تعداد معلوم نہیں ہے جبکہ اجتماعی قبروں کے بارے میں معلومات سامنے آتی رہتی ہیں۔‘‘
سنجار ضلع میں داعش اوروہاں سے اسے نکالنے کی کامیاب کوششوں نے اس علاقے کو تباہ کر دیا تھا۔ ہزاروں یزیدی افراد نے کردستان کے علاقے میں بے گھر افراد کے کیمپوں میں اور کچھ نے بیرون ملک جلاوطنی اختیار کی۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا اور مختلف دھڑوں کی حمایت کرنے والی مختلف ملیشیاؤں کی موجودگی کے باعث سکیورٹی کی صورتحال غیر مستحکم رہی ہے۔
عراق کی حکومت اور کردستان کی علاقائی حکومت کے درمیان سیاسی کشمکش بھی شروع ہوگئی۔ 2020 میں صورتِ حال کے تعطل کوختم کرنے اور یزیدیوں کے لیے وطن واپسی کے حالات پیدا کرنے کے لیےفریقین نے سنجار معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد ایک نیا انتظامی اور سیکیورٹی ڈھانچہ قائم کرنا تھا۔
اس معاہدے پر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔ ترجمان ملر نے سنجار کو اپنا گھر کہنے والی کمیونٹیز کے ساتھ مشاورت کے ساتھ اس معاہدے کے ’’مکمل نفاذ‘‘ اور زندہ بچ جانے والے یزیدی افراد کے لیے قانون کی پاسداری پر زور دیا۔
ترجمان ملر نے کہا کہ ’’یزیدی برادری کے لیے امریکی حمایت ’’غیر متزلزل‘‘ ہے۔ ہم متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے انصاف اور احتساب اور تمام یزیدیوں کے انسانی حقوق کے احترام کے لیے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔
ان میں مذہب یا عقیدے کی آزادی بھی شامل ہے۔ عراق کے لیے انصاف اور احتساب کی پیروی کرتے ہوئے، تشدد کرنے والوں سے نمٹتے ہوئے اور نسل کشی کو روکتے اور مستقبل میں دیگر مظالم کو ختم کرتے ہوئے ایک نئے راستے پر گامزن ہونے کا موقع ہے جو اس کی تمام برادریوں کو امن، استحکام اور خوشحالی کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
ترجمان ملر نے اعلان کیا کہ ’’ عراق اس نقطہ نظر کے ساتھ خطے اور دنیا کے لیے باہمی احترام اور بقائے باہمی کی ایک مثال کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
اس کوشش میں یزیدی اہم ہیں۔ ایسے میں جب ہم متاثرین کو یاد کرتے ہیں اور زندہ بچ جانے والوں اور ان کے مصائب کو پہچانتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہم یزیدیوں کے استحکام، حوصلے اور عزم کا بھی احترام کرتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**