پوٹن نے عالمی غذائی تحفظ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا

فائل فوٹو

روس نے سترہ جولائی کو بلیک سی گرین انیشیٹو میں اپنی شرکت معطل کر دی۔ یہ یوکرین اور روس کے درمیان طے ہونے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت بحری جہازوں کو بحیرہ اسود میں ملکی بندرگاہوں کے ذریعے یوکرینی اناج برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

یو ایس ایڈ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر اسوبل کولمین نے کینیا کی حکومت کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی بحیرہ اسود کے اناج معاہدے سے علیحدگی عالمی سطح پر فوڈ سیکیورٹی کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔‘‘

یو ایس ایڈ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر اسوبل کولمین کا کہنا ہے کہ ’’ اوڈیسا اور بحیرہ اسود خوراک کے تحفظ کے لیے بہت اہم ہیں۔ آپ کے پاس خوراک کی فراہمی کے لیے دو کلیدی وسائل روس اور یوکرین ہیں جو اناج کی برآمدگی کے لیے بحیرہ اسود کو استعمال کرتے ہیں اور بڑی مقدار میں گندم، اناج اور تیل برآمد کرنے کے قابل ہیں۔

اوڈیسا یوکرین کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ روس کے حملے کے بعد سے یہاں بندر گاہ کی 15 فی صد سے بھی کم صلاحیت پر کام ہو رہا ہے اور یہ 15 فی صد بھی بلیک سی گرین انیشیٹو کے ساتھ ممکن ہوا ہے۔

جیسا کہ آ پ نے کہا کہ اب روس اس معاہدے سے الگ ہو چکا ہے۔ لہذا یہ عالمی سطح پر فوڈ سیکیورٹی کے لیے بہت سنگین صورتِ حال ہے۔

دنیا بھر میں لاکھوں لوگ یوکرین کے اناج کی برآمدات پر انحصار کرتے ہیں۔ یوکرین اناج کم قیمت پر برآمد کرتا ہے اور یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں جاتا ہے جیسے قرن افریقہ، مشرق وسطیٰ کے ممالک، یمن اور افغانستان کو جاتا ہے۔ یہ سب ممالک یوکرین کی برآمدات پر انحصار کرتے ہیں ۔‘‘

امریکہ اور یورپی ممالک متبادل برآمدی راستے بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں اور پولینڈ سے ریل کے ذریعے یا رومانیہ سے دریائے ڈینیوب کے راستے برآمدات کے لیے غور کیا جا رہا ہے۔

تاہم اس حوالے سے متعدد رکاوٹیں بھی ہیں۔ یو ایس ایڈ کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر اسوبل کولمین کہتے ہیں کہ ’’ ہم اور یورپی ممالک مل کر کام کر رہے ہیں تا کہ یوکرین کو اپنی پیداوار کی برآمد کے لیے متبادل راستے فراہم کیے جائیں۔

لہذا پولینڈ اور رومانیہ میں زمینی راستے اور رومانیہ کی بندرگاہوں سے دریائے ڈینیوب کا استعمال کرتے ہوئے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں تاکہ خوراک کی برآمدات کو جاری رکھنے کے قابل ہو سکیں۔

لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ یہ بحیرہ اسود کا نعم البدل نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ بحری راستہ دیگر راستوں سے کہیں زیادہ تیز رفتار اور کم قیمت ہے۔‘‘

ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کولمین نے کہا کہ ’’روس جو کچھ کر رہا ہے وہ دنیا میں خوراک کی فراہمی کے ایک بڑے وسیلے کی زرعی صلاحیت کوجانتے بوجھتے ہوئے تباہ کر رہا ہے اور اس کے اثرات آنے والے مہینوں اور برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**