امریکہ نے آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی ،اٹلی، جاپان، جمہوریہ کوریا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر چھ نومبر کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں یوکرین کے خلاف شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس مشترکہ بیان میں توجہ دلائی گئی ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحانہ جنگ کے لیے شمالی کوریا کی براہ راست مدد اس تنازع میں خطرناک توسیع کرے گی جس کے یورپ اور ہند بحرالکاہلی خطے کے امن اور سلامتی کے لیے گھمبیر نتائج ہوں گے۔ پھر یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس میں اقوامِ متحدہ کے منشور کے بنیادی اصول بھی شامل ہیں۔
مشرقی روس میں اس وقت شمالی کوریا کے تقریباً 10 ہزار فوجی موجود ہیں جن میں سے بیش تر کرسک او بلاسٹ میں تعینات ہیں۔
کرسک میں یوکرینی اور شمالی کوریائی افواج کے درمیان جھڑپین بھی ہوئی ہیں۔ امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک صدی سے زیادہ وقت میں پہلا موقع ہے کہ روس نے اپنی سر زمین پر غیر ملکی فوجیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
وہ توجہ دلاتے ہیں کہ ’’وجہ یہ ہے کہ پوٹن کی افواج کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘‘
امریکی وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ ’’حالیہ مہینوں میں یوکرینی افواج کی کارروائی میں روس کی روزانہ 1200 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جو پوٹن کی جنگ کے دوران سب سے زیادہ تعداد ہے اور شمالی کوریا کی افواج کا سہارا لیتے ہوئے پوٹن دنیا کے سامنے اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں۔
کریملن کی جانب سے شمالی کوریا کی شرکت کو تسلیم کرنا اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ پوٹن کی جنگ کس حد تک بگڑ چکی ہے اور وہ کس قدر مصیبت کا شکار ہیں۔
پینٹاگان پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے ایک حالیہ پریس بریفنگ میں بتایا ہے کہ وقت ہی یہ بتائے گا کہ ’’شمالی کوریا کی افواج کیوں کر روسی کارروائیوں میں مدغم ہو چکی ہیں اور کس طرح سے وہ میدان جنگ سے وابستہ ہیں۔
پینٹا گان پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر کہتے ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ یہ افواج کیوں کر اس نقصان کو پورا کر رہی ہیں جن کا روس کو سامنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ایک مناسب اندازہ ہے اور میں یقینی طور پر شمالی کوریا کا فوجی نہیں بننا چاہوں گا کیوں کہ یوکرینی فوجی جنگ کے آزمودہ فوجی ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ آثار یہی ہیں کہ وہ یوکرین کی خود اختیاری کا اور کرسک کا دفاع جاری رکھیں گے۔ کرسک وہ علاقہ ہے جس پر انھوں نے کنٹرول حاصل کیا ہے۔
میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ’’اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے گا اور ہم اس بات کو بھی یقینی بنانا جاری رکھیں گے کہ ہم یوکرین اور تقریباً 50 ملکوں کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد یوکرین کو سیکیورٹی امداد فراہم کرنا اور یوکرین کی خود اختیاری کا دفاع کرنا ہے اور جس کا خیال یہاں اور میدان جنگ دونوں میں ہی رکھا جا رہا ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔