امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک تحریری بیان میں اعلان کیا ہے کہ محکمہ خارجہ عوامی جمہوریہ چین کے اہلکاروں پر ویزا کی پابندیاں عائد کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے جو سرکاری بورڈنگ اسکولوں میں 10 لاکھ سے زیادہ تبتی بچوں کو زبردستی چینی نظام میں ضم کرنے میں ملوث ہونے کا نتیجہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے اس سال کے شروع میں گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تبتی بچوں کے لیے رہائشی اسکولوں کا نظام بڑے پیمانے پر ایک ایسے پروگرام کے طور پر کام کرتا ہے جس کا مقصد تبتیوں کو اکثریتی ہان کلچر میں ضم کرنا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے برعکس ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے توجہ دلائی کہ دیہی اسکولوں کی بندش کے بعد تبتی بچوں کی اکثریت بورڈنگ اسکولوں میں جانے پر مجبور ہے جن میں سے بیشتر ان کے خاندانوں سے دور واقع ہیں۔ تبتی طلبہ کے لیے متعلقہ روایتی یا ثقافتی تعلیم تک رسائی کے بغیرمینڈرن چینی زبان میں نصاب مکمل کرنا ضروری ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ’’یہ جبری پالیسیاں نوجوان تبتی نسلوں کے درمیان تبت کی نمایاں لسانی، ثقافتی اور مذہبی روایات کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی تبت میں انسانی حقوق کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تبت کے متعدد آباد علاقوں میں والدین کو بھی مینڈرن زبان کی تربیت لینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو مینڈرن میں پڑھا سکیں۔ اطلاعات کے مطابق والدین کے لیے تربیتی سیشن کا اضافی محور چینی تعلیم کے ذریعے شرکا کے ’نظریات‘ میں اصلاح کرنا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’تبت اور چین کے دوسرے حصوں میں اسکولوں اور جابرانہ انضمام کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیےہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔ ہم ان اقدامات کو اجاگر کرنے اور احتساب کو فروغ دینے کے لیے بھی کوشاں رہیں گے۔
امریکہ تبتی لوگوں کے ساتھ ہے جن کے انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے اور جن کی منفرد ثقافتی، لسانی اور مذہبی روایات محفوظ رہنی چاہئیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**