ایرانی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہی کو فروغ دینے کے لیے امریکہ نے برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر 10 مزید ایرانی افراد کے ساتھ ساتھ ایک ایرانی ادارے پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
جن افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں ان میں ایران کے نائب وزیر برائے انٹیلی جنس اور ایرانی پاسدران انقلاب کے اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔
ایک بیان میں امریکی محکمۂ خزانہ نے پاسدران انقلاب کی ایک فاؤنڈیشن کو اس ادارے کے اہلکاروں اور ان کے ناجائز کاروباری مفادات کے لیے استعمال ہونے والا 'فنڈ' قرار دیا۔ بورڈ میں خدمات سرانجام دینے والے پانچ افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ "آج کی کارروائی ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی مشاورت سے کی جانے والی پابندیوں کی متعدد قسطوں میں سے تازہ ترین ہے اور اس کا مقصد پرامن مظاہرین کے خلاف ایرانی حکام کے ظالمانہ اور پرتشدد کریک ڈاؤن سے منسلک ایرانی افراد اور اداروں کے لیے ہے۔"
بائیس سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ستمبر میں ملک گیر مظاہروں کے آغاز کے بعد سے، انسانی حقوق کے معتبر گروپوں کا اندازہ ہے کہ مظاہروں کے سلسلے میں 19,000 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایرانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک درجن سے زیادہ کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور چار افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
امریکہ کی طرف سے پابندیوں کا شکار ہونے والے افراد میں پاسدران انقلابِ کے کئی سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔ یہ افراد پاسدران انقلاب کے ایران میں جاری وحشیانہ کریک ڈاؤن کا اہم کردار ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر مظاہروں کے دوران بدترین کارروائیوں کا ارتکاب کیا۔
ان افراد پر یہ بھی الزام ہے کہ اںہوں نے غیر مسلح افراد پر فائرنگ کی جب کہ اسپتالوں میں خون کی بوتلیں لے کر جانی والی گاڑیوں پر شیلنگ کی۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ نئی نامزدگیوں سے ایرانی حکومت کو بہت واضح پیغام ملتا ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے اور دنیا اس تشدد کے جواب میں کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے جو ایرانی اہلکار اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں۔
جیسا کہ وزیر خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ" امریکہ ان بہادرایرانیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا جو اپنے بنیادی حقوق کے لیے کھڑے ہیں، جن کی قیادت بہادر نوجوان خواتین کر رہی ہیں ۔ جب کہ ان سب کو غیر معمولی جبر کا سامنا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**