آٹھ فروری کو وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے فوری طور پر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل یا یو این ایچ آر سی کے ساتھ امریکہ کے دوبارہ روابط کا اعلان کیا۔
امریکہ بدستور ایک ایسی خارجہ پالیسی سے وابستگی رکھتا ہے جس کا محور جمہوریت، انسانی حقوق اور برابری پر مبنی ہو۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ کثیر الجہتی طریقوں کا مؤثر استعمال اس سوچ کا ایک اہم عنصر ہے اور اس سلسلے میں صدر جو بائیڈن نے محکمۂ خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ساتھ فوری طور پر اور تندہی سے رابطہ استوار کریں۔
ساتھ ہی وزیرِ خارجہ بلنکن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ضرورت ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے، رکنیت اور مرکزیت کی اصلاح کرے جس میں اسرائیل کے معاملے میں دوہرا معیار شامل ہے۔ انھوں نے بہرحال اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ جون 2018 میں کونسل سے ہماری علیحدگی سے کسی معنی خیز تبدیلی کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی بلکہ اس کے بجائے امریکہ کی قیادت کا ایک خلا پیدا ہوگیا، جسے ایسے ملکوں نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جو آمرانہ ایجنڈا رکھتے ہیں۔
ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ یو این ایچ آر سی کی کارگزاریوں کو فروغ دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اندرونی طور پر اقدامات کیے جائیں۔
کونسل کو جس کام کے لیے بنایا گیا ہے اگر وہ ان ہی خطوط پر کام کرے تو یہ بنیادی آزادیوں، عورتوں اور لڑکیوں، ایل جی بی ٹی کیو آئی اور دوسرے افراد اور دیگر بچھڑی ہوئی برادریوں کے حقوق کے تحفظ کے مقصد کو فروغ دینے کے لیے ایک طاقت ور وسیلہ بن سکتی ہے اور ساتھ ہی دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے احتساب کو تقویت پہنچا سکتی ہے۔
یو این ایچ آر سی کے ساتھ دوبارہ روابط کا عمل جنیوا میں جاری ہے جہاں امریکی مشن نے پہلے ہی کونسل کی ایک باقاعدہ تنظیمی میٹنگ اور برما کی صورتِ حال کے بارے میں خصوصی اجلاس میں شرکت کی ہے۔
ترجمان پرائس نے کہا کہ فی الوقت یہ رابطہ ایک مبصر کے طور پر ہوگا جو ہمیں کونسل میں اظہارِ خیال، مذاکرات میں شرکت اور شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے موقع فراہم کرے گا جیسا کہ وزیرِ خارجہ بلنکن نے زور دیا کہ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر کونسل کے ساتھ تعمیری انداز میں رابطہ رکھے گا اور اس طرح مثبت تبدیلی ہماری دسترس میں ہوگی۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**