Accessibility links

Breaking News

امریکہ، ایران جوہری مذاکرات: اُمید اور غیر یقینی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران اور ایٹمی توانائی کے بین الااقوامی ادارے 'آئی اے ای اے' نے ایران کے ایٹمی ٹھکانوں سے متعلق مشاہدے کا معاہدہ ایک مہینے تک کے لیے بڑھا دیا ہے۔ یہ معاہدہ 21 مئی کو ختم ہو گیا تھا۔

آخری وقت میں یہ توسیع اس وقت عمل میں آئی جب ویانا میں ایران کے ایٹمی معاہدے پر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کا نیا دور ہونے والا تھا۔ امریکہ اور ایران نے کہا ہے کہ وہ 'جے سی پی او اے' نامی سمجھوتے پر عمل درآمد شروع کرنے کے مقصد میں برابر کے شریک ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ نے 2018 میں اس سمجھوتے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ایران پر نئی تعزیرات لگا دی تھیں۔

اس کے بعد سے ایران نے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں اس سطح سے زیادہ یورینیم کی افزودگی شامل ہے جو 'جے سی پی او اے' میں مقرر کی گئی تھی۔

موجودہ مذاکرات کی سربراہی یورپی یونین کر رہا ہے اور ان میں ایران، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، اور روس شامل ہیں۔ امریکہ کی شمولیت کلیدی لیکن بالواسطہ ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملکوں یعنی امریکہ اور ایران کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کے مقصد کو پھر سے کس طرح حاصل کیا جائے۔

انیس مئی کو مذاکرات کے دور کے بعد یورپی خارجہ امور کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اینریک مورا نے کہا کہ شرکا نے اچھی پیش رفت کی ہے اور اِس معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک حالیہ ٹیلیویژن انٹرویو میں کہا کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہر فریق کو کیا کرنا ہے تاکہ عمل درآمد پھر سے شروع کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ہمیں پتا ہے کہ وہ کون سی تعزیرات ہیں جو اس صورت میں اٹھائی جا سکتی ہیں اگر وہ نیوکلیئر معاہدے سے ہم آہنگ نہیں پائی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ایران کو یہ معلوم ہے کہ نیوکلیئر معاہدے میں اِسے کن باتوں پر عمل درآمد کرنا ہے اور جو چیز ہم نے ابھی تک نہیں دیکھی وہ یہ ہے کہ ایران کو جو کچھ کرنا ہے اس کے لیے ایران تیار ہے بھی کہ نہیں۔ یہ ایک امتحان ہے اور ہمارے پاس ابھی تک اس کا جواب نہیں ہے۔

ایک اور انٹرویو میں وزیرِ خارجہ بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ 'جے سی پی او اے' میں واپسی کے لیے بالکل تیار ہے اور اگر دونوں ممالک اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو 'جے سی پی او اے' کو ایک ایسے مضبوط معاہدے کی بنیاد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی جانب سے عدم استحکام پیدا کرنے کے طرزِ عمل پر بھی توجہ دی جا سکے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ پہلا قدم معاہدے پر باہمی عمل درآمد کے لیے واپسی ہے۔ اسی بات پر ہم کام کر رہے ہیں اور ہم اب بھی اس چیز سے نا واقف ہیں کہ ایران اس معاہدے پر رضا مند ہے یا نہیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG