میونخ میں حالیہ ورچوئل سکیورٹی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خطرے کے ضمن میں بدستور احتیاط پر مبنی سفارت کاری اور تعاون درکار ہے تاکہ فوجی غلط فہمی یا غلطیوں کے خدشات کو کم کیا جاسکے۔
ان کے بقول اسی وجہ سے ہم نے کہا ہے کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں پی فائیو پلس ون کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے لیے یہ بھی لازم ہے کہ ہم پورے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں پر توجہ دیں اور ہم جوں جوں پیش رفت کریں گے، ہم اپنے یورپی اور دوسرے شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کریں گے۔
صدر بائیڈن کے ریمارکس اس سے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں جب امریکہ نے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے اس مشترکہ مقصد کا اظہار کیا کہ ایران 2015 کے ایران نیوکلیئر معاہدے (جے سی پی او اے) کے تحت اپنے وعدوں پر پھر سے پوری طرح عمل درآمد کرے۔
چاروں طاقتوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر ایران پوری طرح عمل درآمد کرتا ہے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا اور وہ اس مقصد کے لیے ایران کے ساتھ مذاکرات میں شمولیت کے لیے آمادہ ہے۔
امریکہ نے 2018 میں 'جے سی پی او اے' میں شرکت روک دی تھی اور معاہدے کے تحت اٹھائی جانے والی امریکی اقتصادی تعزیرات دوبارہ عائد کردی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ایران کے خلاف نئی تعزیرات بھی لگادی تھیں۔ اس نے ایرانی سفارت کاروں پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی تھیں اور ایران کے خلاف اقوامِ متحدہ کی مختلف النوع تعزیرات دوبارہ لگانے کے لیے اقدامات کئے تھے، جنھیں اسنیپ بیک کا نام دیا جاتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں ایران نے 'جے سی پی او اے' کی حدود کو پار کرتے ہوئے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں یورینیم کی تقریباً 20 فیصد تک افزودگی شامل ہے جو اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا 'جے سی پی او اے' کے تحت اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس نے یورینیم کی دھات کی پیدوار بھی شروع کردی، جو ایک ایسا عمل ہے جسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔
سفارت کاری میں غیر ضروری رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے 18 فروری کو امریکہ نے ایرانی نمائندوں پر سے سفر کی وہ پابندیاں ختم کردیں جو سابقہ انتظامیہ نے لگائی تھیں۔ امریکہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس نے ایران کے خلاف اقوامِ متحدہ کی کثیر الجہتی تعزیرات کو دوبارہ عائد کرنے کے سلسلے میں سابقہ انتظامیہ کی اختیار کردہ پوزیشن کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ یورپی یونین اب غیر رسمی مذاکرات کے لیے کام کر رہی ہے جن میں ایران اور پی فائیو پلس ون کے ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس شامل ہوں گے۔ ان مذاکرات کا مقصد جے سی پی او اے کو بحال کرنا ہوگا۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صدر بائیڈن نے ایران کو ایٹمی ہتھیار کے حصول سے باز رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور یہ کہ صدر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پختہ اور واضح نوعیت کی سفارت کاری اس کام کو سرانجام دینے کا بہترین راستہ ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**