امریکہ نے ایک غیر ملکی دہشت گرد اور خصوصی طور پر عالمی دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم کی حیثیت سے انصار اللہ یا حوثی تحریک کی نامزدگی کو تبدیل کر دیا ہے۔
یہ بات بائیڈن ۔ ہیرس انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے جس کے تحت یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں فوجی کارروائی کے لیے حمایت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ جنگ جو حوثی باغیوں کے خلاف تھی، چھ سال سے زیادہ عرصہ پہلے شروع ہوئی تھی جس نے ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس سے تقریبا دو کروڑ 40 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، جب کہ دو لاکھ 33 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک بیان میں صراحت کی ہے کہ دوسروں کے علاوہ ہم نے اقوامِ متحدہ، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے گروپوں اور کانگریس کے غیر جانبدار ارکان کی جانب سے ایسے انتباہ سنے ہیں کہ دہشت گرد کے طور پر نامزدگی کی وجہ سے بنیادی اشیا مثلاً خوراک اور ایندھن تک یمن کے لوگوں کی رسائی پر تباہ کن اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ یمن میں انسانی صورتِ حال پر صحیح توجہ دینے سے ہمیں امید ہے کہ یمن کے اندر فریقین، مذاکرات میں شمولیت پر بھی غور کرسکتے ہیں۔
انصار اللہ کے لیڈر عبدالمالک الحوثی، عبد الخالق بدرالدین الحوثی اور عبداللہ یحیٰ الحکیم کے خلاف بدستور تعزیرات عائد ہیں۔
وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہم انصار اللہ اور اس کے لیڈروں کی سرگرمیوں کا قریب سے جائزہ لیتے رہیں گے اور ہم تعزیرات کے لیے اضافی اہداف کی بغور نشان دہی کر رہے ہیں۔ امریکہ، انصار اللہ کے ارکان پر عائد اقوامِ متحدہ کی تعزیرات پر عمل درآمد کی حمایت جاری رکھے گا، اس گروپ کی عدم استحکام کی سرگرمی پر توجہ دلاتا رہے گا اور اس بات کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا کہ وہ اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی پیدا کرے۔
امریکہ کا ذہن انصار اللہ کی ایسی مذموم کارروائیوں کے بارے میں بدستور صاف ہے جن میں طاقت کے ذریعے یمن کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کرنا، خلیج میں امریکہ کے شراکت داروں پر حملے کرنا، امریکہ اور بہت سے اتحادیوں کے شہریوں کو اغوا کرنا اور اذیت دینا، انسانی امداد کا رخ بدلنا، اپنے کنٹرول والے علاقوں میں یمنی باشندوں پر ظالمانہ جبر و استبداد روا رکھنا اور 30 دسمبر 2020 کو عدن میں یمن کی جائز حکومت کی کابینہ کے خلاف مہلک حملہ شامل ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ انصار اللہ کی کارروائیاں اور اس کی سرکشی کی وجہ سے یہ تنازع طول پکڑ رہا ہے اور انسانی نقطہ نظر سے اس کی شدید قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ان کے بقول ہم نے خلیج میں امریکہ کے شراکت داروں کے دفاع کے لیے ان کی مدد کا تہیہ کر رکھا ہے جس میں یمن میں جنم لینے والے خطرات شامل ہیں جن میں سے بہت سی کارروائیاں ایران کی مدد سے سر انجام دی جاتی ہیں۔ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ اور دوسروں کے ساتھ مل کر امریکہ اپنی کوششیں دو چند کردے گا۔ ہم اپنے اس پختہ یقین کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ پائیدار سیاسی حل کے لیے کام کریں، جو اس انسانی بحران کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے، جس نے یمن کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**