امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ان کی ملاقات کے دوران بہت سے موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا جس کا مقصد روس اور امریکہ کے درمیان ایک مستحکم اور توقع کے مطابق تعلقات استوار کرنا ہے۔
ان میں سے ایک فوجی استحکام کا معاملہ تھا جس میں ہتھیاروں پر کنڑول شامل ہے۔ ایک پریس بریفنگ میں صدر بائیڈن نے فوجی استحکام سے متعلق مذاکرات شروع کرنے میں امریکہ کے ساتھ شمولیت کے لیے روس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اس مکالمے کے ذریعے روس اور امریکہ مستقبل میں ہتھیاروں پر کنڑول اور خطرات میں کمی کے اقدامات کے لیے بنیاد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور موضوع جس کا احاطہ کیا گیا وہ روس کی خارجہ انٹیلی جنس سروس کی شمسی توانائی کے حملے کے نتیجے میں سائبر سیکیورٹی کا تھا جن کی وجہ سے دنیا بھر میں سیکڑوں کمپیوٹر متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ تاوان کے لیے ان سائبر حملوں کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا جو روس سے کیے جاتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم اپنے ملکوں میں ماہرین کو یہ کام سونپیں گے کہ وہ ان مخصوص پہلوؤں پر کام کریں کہ ان کی حدود کیا ہیں اور ان خاص معاملات کا جائزہ لیں جن کا آغاز کسی ملک سے بھی ہوا ہو۔
اس بات کی ضرورت پر بھی غور ہوا کہ مصائب کے شکار لاکھوں شامیوں کے لیے جاری انسانی امداد کو روس اور امریکہ یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی غور ہوا کہ افغانستان میں دہشت گردی کو جڑ پکڑنے سے روکنے کے لیے روس اور امریکہ دونوں کیا ممکنہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ ایک اور معاملہ جس پر توجہ دی گئی وہ اسے یقینی بنانا تھا کہ ایرانی حکومت کبھی بھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔
صدر بائیڈن نے صدر پوٹن کے ساتھ کئی اہم معاملات اٹھائے جن میں یوکرین کے اقتدارِ اعلی اور اس کی علاقائی یکجہتی کے لیے امریکہ کا غیر متزلزل عہد شامل تھا۔
انہوں نے صدر پوٹن سے یہ بھی کہا کہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہمیشہ پیشِ نظر رہے گا۔ مسٹر بائیڈن نے کہا کہ یہ مسئلہ اس سے جڑا ہے کہ ہم کون ہیں۔
صدر بائیڈن نے جیل میں بند حزبِ مخالف کے رہنما الیکسی نوالنی کا معاملہ بھی اٹھایا اور انہوں نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ انہوں نے صدر پوٹن پر واضح کر دیا ہے کہ اگر نوالنی کی جیل میں موت واقع ہو گئی تو روس کے لیے اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ انہوں نے کریملن کی جانب سے امریکہ کے نشریاتی نیٹ ورک، ریڈیو فری یورپ۔ ریڈیو لبرٹی کو ہراساں کیے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا اور صدر پوٹن پر ایک آزاد پریس اور اظہارِ رائے کی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ گھنٹے بھر کی سربراہی ملاقات کا لہجہ مثبت تھا۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے وہی باتیں کی ہیں جن کے لیے وہ گئے تھے۔ یعنی ان شعبوں کی نشان دہی جن میں ہمارے دونوں ممالک اپنے باہمی مفاد کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں، براہ راست تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں اور جب کبھی بھی ہمارے اہم مفادات کو خطرہ ہو گا تو امریکہ اس کا جواب دے گا اور اپنے ملکوں کی اقدار کی واضح طور پر صراحت کی جائے گی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ آگے کی جانب کام کرنا باقی ہے۔ تاہم اب ہم نے ایک واضح بنیاد فراہم کر دی ہے کہ ہم روس کے ساتھ اور امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کو کس طرح آگے لے کر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**