عراق میں مذہبی آزادیوں کے لیے بڑا دھچکہ

فائل فوٹو

عراق میں مسیحی برادری دو ہزار سال سےقیام پذیر ہے۔ حالیہ دہائیوں میں، جنگ، جبر، تشدد اور جبری نقل مکانی نے اس تعداد کو کافی حد تک کم کر دیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2003 میں عراق میں 15 لاکھ مسیحی بستے تھے۔

صدام حسین کے زوال، القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کے عروج اور ایران کی حمایت یافتہ پاپولر موبلائزیشن فورسز کی تشکیل اور حربوں کے نتیجے میں یہ تعداد کم ہو کر صرف ڈیڑھ لاکھ رہ گئی ہے۔

حال ہی میں مسیحی برادری کو ایک نیا دھچکا لگا ہے اور خاص طور پرکالڈین کیتھولک مسیحی اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو عراق میں مسیحیوں کی مجموعی تعداد کا تقریباً 67 فی صد ہیں۔

عراقی صدر عبداللطیف راشد نے جولائی میں اچانک 2013 کا ایک حکم نامہ منسوخ کر دیا جس میں کارڈینل لوئس رافیل ساکو کو کالیڈین چرچ کے سرپرست کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

پندرہ جولائی کوکارڈینل ساکو نے اعلان کیا کہ وہ بغداد میں اس نظام سےالگ ہو کر عراقی کردستان کی ایک خانقاہ میں منتقل ہو جائیں گے۔

کارڈینل ساکو نے بے باک انداز میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں جبر کی وجہ سے مسیحی غائب ہو رہے ہیں جس کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ وہ بغداد میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔

عراقی صدر راشد کو لکھے گئے خط میں کارڈینل نے کہاکہ ان کے خلاف ’’جانی بوجھی اور ذلت آمیز مہم‘‘کی قیادت مبینہ طور پر ریان الکلدانی کر رہے تھےجو کرسچن 50 ویں بابی لون بریگیڈملیشیا کے سربراہ ا ور ایران نواز پاپولر موبلائزیشن فورسز کا حصہ ہے۔ اس گروپ نے متعدد مسیحی شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ 50ویں بابی لون بریگیڈ ’’بھتہ خوری، غیر قانونی گرفتاریوں، اغوا اور بغیر وارنٹ کے افراد کو حراست میں لینے‘‘ کے واقعات میں ملوث رہی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے اس کے رہنما الکلدانی پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے جرم میں پابندی عائد کی۔ ان خلا ف ورزیوں میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم، غیر قانونی طور پر زرعی اراضی پر قبضہ اور فروخت اور خواتین کو ڈرانے، بھتہ خوری اور ہراساں کرنے جیسے معاملات شامل ہیں۔

کارڈینل ساکو دیگر مبصرین کے ساتھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے خلاف مہم ان کے اختیار کو غصب کرنے اور ملک میں مسیحیوں کی باقی ماندہ تعداد پر کنٹرول کرنے کا ایک حربہ ہے۔

امریکہ کو کارڈینل ساکو کےساتھ اپنائے گئے رویے پر پریشانی ہے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کارڈینل ساکو کو ’’چرچ کا ایک قابل احترام رہنما قرار دیا جنھیں ایک ایسے ملیشیا لیڈر کے حملے کا سامنا ہے جس پر پابندیاں عائد ہیں۔

انہوں نے توجہ دلائی کہ عراقی مسیحی برادری ’’عراق کی شناخت کا ایک اہم حصہ عراق کی تنوع اور رواداری کی تاریخ کا ایک مرکزی حصہ ہے۔‘‘

ترجمان ملر نے کہا کہ کارڈینل کی حالتِ زار ’’مذہبی آزادی کے لیے ایک دھچکا ہے اور اسی لیے ہم نے اپنے تحفظات کو واضح کرنے کے لیے عراقی حکومت کے ساتھ براہ راست رابطہ کیا ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**