سال بھر گزر گیا جب برما کے عوام نے کثیر جماعتی قومی انتخاب میں حصہ لیا۔ بعض انتظامی سقم کے باوجود 8 نومبر 2020 کے انتخابات کو معتبر خیال کیا گیا اور جیسا کہ وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ایک تحریری بیان میں سال بھر پورے ہونے پر کہا کہ اس سے جمہوریت کے لیے برما کے لوگوں کی وابستگی کا اعادہ ہوا۔
اس کے بعد برما میں جو کچھ ہوا اس سے انیسویں صدی کے امریکی شاعر جون گرین لیف وہٹیر کے مشہور اشعار ذہن میں آتے ہیں کہ زبان اور قلم سے نکلے ہوئے تمام غمگین الفاظ میں سب سے زیادہ غم ناک وہ ہیں کہ "شاید ایسا ہو سکتا تھا"۔
انتخابات کے نتیجے میں برما کے لیے جو امید پیدا ہوئی تھی وہ یکم فروری 2021 کو چکنا چور ہو گئی جب برمی فوج نے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا اور ملک کی رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی یا این ایل ڈی کے ارکان کو حراست میں لے لیا۔ نومبر 2020 کے پارلیمانی الیکشن میں این ایل ڈی کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی لیکن فوج نے اس وقت بغاوت کر دی جب ملک کی نئی منتخب پارلیمان اپنے افتتاحی اجلاس کی تیاری کر رہی تھی۔
امریکہ نے ایک بین الاقوامی اتحاد کو متحرک کیا جس نے فوجی کارروائیوں کی سخت مذمت کی جس کے نتیجے میں فوجی حکومت کے ہاتھوں جمہوریت کی جانب برما کا سفر ختم ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے جن کے خلاف فوج نے مہلک انداز میں طاقت کا استعمال کیا۔
تیرہ سو سے زیادہ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں اور دس ہزار سے زیادہ لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں۔
موجودہ فوجی حکومت کے بہت سے افراد وہی ہیں جو غالب آبادی والے روہنگیا کی نسلی تطہیراور دوسری مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف افسوس ناک تشدد کے ذمے دار ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ فوج کی جاری پرتشدد پکڑ دھکڑ سے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو مزید دھچکا لگا ہے اور ایک حقیقی جمہوریت کی جانب ایک عشرے پر محیط پیش رفت کو اس نے تبدیل کر دیا ہے جس کے برما کے لوگ متمنی رہے ہیں اور اب بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔
آٹھ نومبر کے انتخابات کے سال بھر پورے ہونے پر وزیر خارجہ بلنکن نے واضح طور پر کہا کہ ہم برما کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق کے احترام اور اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ ہم تیرہ سو سے زیادہ ان بے گناہ لوگوں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس جدو جہد میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا ہے۔
امریکہ نے اس بات کا تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ برما کی حکومت کی جانب سے ان زیادتیوں اور خلاف ورزیوں کے لیے انصاف اور احتساب کی وکالت کرتا رہے گا۔
ہم فوجی حکومت سے اپنے اس مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر تشدد بند کرے، ان تمام لوگوں کو رہا کرے جنہیں غیر منصفانہ طو ر پر حراست میں لیا گیا ہے، اور برما کو ایک حقیقی اور کھلی جمہوریت کی راہ پر دوبارہ گامزن کرے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**