امریکہ کی انسانی سمگلنگ کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ میں ایک بڑھتے ہوئے اور پریشان کن رجحان کی جانب توجہ دلائی گئی ہے جس کا تعلق سائبر سکیم ( سائبر دھوکہ دہی ) کی کارروائیوں میں جبری مشقت کے آغاز سے ہے۔
انسانی اسمگلنگ کی نگرانی اور روک تھام کے لیے امریکی سفیر سنڈی ڈائر کہتی ہیں کہ ’’ اسمگلروں نے وبائی امراض سے جڑی معاشی مشکلات، عالمی سطح پر نوجوانوں کی بے روزگاری میں اضافہ اور بین الاقوامی سفری پابندیوں کا فائدہ اٹھایا ہےاوراربوں ڈالر کے اس کاروبار میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہزاروں بالغوں اور بچوں کا استحصال کیا ہے۔
امریکی سفیر سنڈی ڈائر کا کہنا ہے کہ ’’متعدد افراد نے نوکری کی پیشکش کا جواب دیا ہے جو ان کے خیال میں آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی)، کیسینو یا (کسی اور شعبے کا ) بظاہر جائز کاروبار ہے۔
اکثر ان افراد کو کوٹے کے ناممکن انتظامات کے تحت سائبر دھوکے میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسمگلروں کے مقروض ہو جاتے ہیں۔
سمگلر اس قرض کو متاثرین کے لیے جبری مشقت اور جنسی اسمگلنگ کے حوالے سے استحصال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس دھوکہ دہی میں خصوصی اقتصادی زونز میں لوگوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر پورے جنوب مشرقی ایشیا کے لوگ شامل ہیں۔ کم از کم 35 ممالک اور خطوں کے افراد اس دھوکہ دہی کا شکار بن جاتے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں برما، کمبوڈیا، لاؤس، ملائیشیا اور فلپائن میں سائبر اسکیم یا دھوکہ دہی کی کارروائیاں منظر عام پر آئی ہیں۔ امریکی حکومت اس جرم کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
امریکی سفیر کہتی ہیں کہ سب سے پہلے تو ہم حکومتوں اور حکام کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ وقت سے پہلے اقدام کر کے متاثرین کی شناخت اور مدد کرنے کو ترجیح بنائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم خطے میں اسمگلنگ کے اس بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صلاحیت پیدا کرنے کے لیے غیر ملکی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔
ایک اور پہلو کو بھی مدِ نظر رکھا جا رہا ہے کہ اسمگلنگ کی اس صورتِ حال سے بچ نکلنے والےافراد کو اکثر انتظامی سطح پر فوج داری الزامات، یا امیگریشن کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا ہوتا ہے اور ہم حکومتوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسے افراد کو سزا نہ دیں جنہیں سائبر کرائم کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر مجبور کیا گیا ہو۔
سفیر ڈائر نے ایشیا بحرالکاہل خطے میں کئی حکومتوں کی’’واقعتا اچھا کام‘‘ کرنے کی تعریف کی جیسے کہ تائیوان نے متاثرین کی اسکریننگ اور جبری جرائم کے معاملات میں استثنیٰ فراہم کرنے کی کوششوں میں اضافہ کیا ہے۔
لاؤس خصوصی اقتصادی علاقے گولڈن ٹرائنگل سے لاؤ متاثرین کی بازیابی کے لیے بین الاقوامی حکام کےساتھ تعاون کر رہا ہے اور ہانگ کانگ نے متاثرین اور خاندانوں کے لیے سائبر دھوکہ دہی کی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے ویب پر مبنی ایک ایپلی کیشن تیار کی ہے۔
سفیر ڈائر نے توجہ دلائی کہ ایشیا بحرالکاہل خطے میں اسمگلنگ کے متاثرین کی زیادہ تعداد کی نشاندہی کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اسمگلروں کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا پانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔
سفیر ڈائر نے اعلان کیا کہ ’’ یہ اضافہ حوصلہ افزا ہے۔لیکن خطے میں انسانی سمگلنگ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**