دس جنوری کو برما کی ایک عدالت نے برما کی منتخب اسٹیٹ کونسلر آٓنگ سان سوچی کو چارسال جیل کی سزا سنائی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پرغیرقانونی طورسے واکی ٹاکی کی درآمد کی۔ ٹیلی مواصلات کے قانون کی خلاف ورزی کی اور کرونا وائرس کی پابندیوں کی بھی خلاف ورزیاں کیں۔ اس سے پہلے انہیں ایک اور مقدمے میں چھ دسمبر2021 کو چار سال کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے عوامی بے چینی کو ہوا دی اور کووڈ-19 کے قواعد کو توڑا۔ اس پہلی سزا میں قید کوکم کرکے دو سال کردیا گیا۔
اس کے علاوہ آنگ سان سوچی کو دس یا اس سے زیادہ مزید الزامات کا سامنا ہے۔ اگرانہیں سزا ہو گئی تو انہیں سو سال تک جیل میں رہنا پڑے گا۔
انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر مشیل بیچلٹ نے کہا کہ فوجی کنٹرول والی عدالت میں خفیہ کارروائیوں کے دوران ایک جعلی مقدمے کے بعد اسٹیٹ کونسلر کی سزا کے محض سیاسی محرکات ہیں، جب کہ ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹ سن نے اس جانب توجہ دلائی کہ اس سارے عمل کا تعلق اس بات سے ہے کہ آنگ سان سوچی کے خلاف مزید سزاؤں کا انبارلگا دیا جائے تاکہ وہ غیرمعینہ عرصے کے لیے جیل میں ہی رہیں۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر آنگ ساں سوچی اوران تمام لوگوں کو جنہیں غیرمنصفانہ طور پر حراست میں لیا گیا ہے رہا کیا جائے، جن میں جمہوری طریقے سے منتخب کیے جانے والے دوسرے رہنما شامل ہیں۔
سیاسی مخالفین، قانون کی حکمرانی اور برما کے لوگوں کے خلاف تشدد کے جاری استعمال سے حکومت کی جعلی عدالتی کارروائیوں سے صرف یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ برما میں جمہوریت کی جانب راستے کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
آنگ سان سوچی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی یا این ایل ڈی کی لیڈر ہیں۔ نومبر 2020 میں این ایل ڈی نے برما کی اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں ، قومی انتخابات کے بعد، بھاری اکثریت حاصل کرلی تھی۔ یکم فروری 2021 کو برما کی فوج نے جس کی حمایت یافتہ پارٹی نے پارلیمنٹ کی 476 نشستوں میں سے صرف 33 پر کامیابی حاصل کی تھی بغاوت کر دی۔
آنگ سان سوچی کو صدر، متعدد وزرا، ان کے نائبین اور پارلیمنٹ کے ارکان سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے خلاف جو جعلی الزامات لگائے گئے ان سے ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی جو آج بھی 80 فی صد کے قریب ہے۔
ترجمان پرائس نے کہا کہ برما کےعوام برابراس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ فوجی آمریت کے تحت مزید ایک دن بھی گزارنا نہیں چاہتے، اورہم ان کی اور ان تمام لوگوں کی حمایت جاری رکھیں گے جو جمہوریت کی جانب برما کے سفر کو بحال کرنے کے لیے پرامن طورپر کام کررہے ہیں۔
ہم حکومت سے برابر مطالبہ کرتے رہیں گے کہ تمام فریقین کے ساتھ تعمیری مذاکرات شروع کرے تاکہ لوگوں کے مفاد میں ، ایک پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**