امریکہ اورچین کے تعلقات امریکہ کے لیے بدستوراہم تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ہوورانسٹی ٹیوشن میں ایک حالیہ مباحثے کے دوران وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے باور کروایا کہ شی جن پنگ کی قیادت میں حالیہ برسوں میں "ایک بہت مختلف" چین ابھرکرسامنے آیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ عوامی جمہوریہ چین کا اندرونِ ملک طرزِ حکمرانی جابرانہ ہے جب کہ بیرونِ ملک اس کی پالیسیاں جارحانہ ہیں۔
یہ خاص طور پر تائیوان کے حوالے سے واضح ہے۔ جوں کی توں صورتِ حال پرقائم رہنے کے بجائے بیجنگ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اتحاد کے حصول کے لیے زبردستی اورشاید بالآخرطاقت استعمال کرے گا۔
وزیرِخارجہ نے مزید کہا کہ "یہ نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ یہ دنیا بھر کے ممالک کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے، جس قدر تجارتی ٹریفک روزانہ آبنائے تائیوان سے گزرتی ہےاس کا پوری دنیا کی معیشتوں پربہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگرتائیوان میں کسی بحران کے نتیجے میں سیمی کنڈکٹرز کی صنعت متاثر ہوتی ہے توخاص طور پرسیمی کنڈکٹر کی صنعت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ لہذا تائیوان اورآبنائے کے معاملے میں نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دنیا بھر کے ممالک کے لیے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بہت کچھ دا داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس بات کویقینی بنانا ہوگا کہ جواختلافات موجود ہیں ان کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ "بیجنگ ایک ایسی جگہ پرواپس آئے گا کہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے نہ کہ وہ جبر کے ذریعے چیزوں کو زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس کی بد ترین شکل طاقت کا استعمال ہوگا۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے خبردار کیا کہ "ہم تائیوان ریلیشنزایکٹ کے تحت تائیوان کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کرنے اوراپنے دفاع کو مضبوط بنانے کی اس کی صلاحیت کی حمایت کےعزم پر قائم ہیں۔ تاہم تائیوان ریلیشنزایکٹ، تین مشترکہ اعلامیوں اورچھ یقین دہانیوں کی رہنمائی میں، امریکہ بدستورایک چین کی پالیسی پرقائم ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**