ہانگ کانگ کے بارے میں وعدہ شکنی

فائل فوٹو


برطانیہ کی جانب سے ہانگ کانگ کا کنٹرول عوامی جمہوریہ چین کو منتقل کیے ہوئے 25 سال ہو چکے ہیں۔ یہ منتقلی بیجنگ کی طرف سے اس وعدے کے ساتھ کی گئی تھی کہ ہانگ کانگ کو پچاس سال تک اعلیٰ درجے کی خود مختاری کی اجازت دی جائے گی اور ہانگ کانگ کے لوگوں کو ان کی بنیادی آزادیوں کی ضمانت دی جائے گی۔

تاہم، عوامی جمہوریہ چین نے اپنا وعدہ توڑ دیا ہے اور چین- برطانیہ مشترکہ اعلامیہ اور بنیادی قانون کے تحت قائم کردہ "ایک کاؤنٹی، دو نظام" فریم ورک قائم رکھنے کا مذاق بنا دیا ہے۔

قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے منتقلی کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پرایک بیان میں کہا کہ "ہم نے ہانگ کانگ کے جمہوری اداروں کو ختم کرنے اورعدلیہ پر بے مثال دباؤ، عالمی، ثقافتی اور صحافتی آزادیوں کو دبانے اور جبر کا مشاہدہ کیا ہے، وہاں سول سوسائٹی کے درجنوں گروپس اورخبر رساں اداروں کو بھی ختم کر دیا گیا۔

ہانگ کانگ میں 2019 میں لاکھوں افراد مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جو متنازعہ حوالگی کے قانون کے خلاف شروع ہوئے۔ اس کے جواب میں، بیجنگ نے نام نہاد قومی سلامتی کا قانون منظور کیا، جو ہانگ کانگ اورعوامی جمہوریہ چین کے حکام کے لیے اختلافِ رائے کو دبانے کا وسیلہ بن چکا ہے۔

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک الگ بیان میں کہا کہ "حکام نے اپوزیشن کو جیل میں ڈال دیا ہے جن میں سے بہت سے لوگوں کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے قید کیا گیا ہے۔

ہانگ کانگ کے رہنماؤں نے آزاد میڈیا تنظیموں پر چھاپے مارے ہیں، بہت سے میوزیم بند کردیے گئے اورآرٹ کے عوامی نمونوں کو ہٹا دیا ہے، جمہوری اداروں کو کمزور کیا ہے۔ انتخابات میں تاخیر ہوئی ہے، احتجاج کو روکا گیا ہے، رت جگوں کی ممانعت کی گئی۔ موجود قانون سازوں کو نااہل قرار دیا ہے، اور وفاداری کا حلف رائج کیا گیا۔انہوں نے یہ سب کچھ ہانگ کانگ کے شہریوں کو اس حق سے محروم کرنے کی کوشش میں کیا ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

سنٹر فارا سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزکے ایک حالیہ پالیسی اجلاس سے خطاب میں، ہانگ کانگ اورمکاؤکے لیے اس وقت کے امریکی قونصل جنرل مائیکل ہینسکام اسمتھ نے کہا کہ بیجنگ کے اقدامات نے "اُن اداروں اور طریقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو بین الاقوامی اعتماد کی بنیاد رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کے عوام طویل عرصے سے اسی ٘ماحول میں اپنی زندگی گذار رہے تھے۔ ہانگ کانگ کے لوگ مشکلات کا شکار ہیں اوربہت سے کاروباراورنوجوان پیشہ ورافراد ایک ایسے شہرسے فرار ہو رہے ہیں جہاں استحکام اور قانون کی حکمرانی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ قونصل جنرل اسمتھ نے کہا کہ امریکی حکام کے پاس ہانگ کانگ اوراپنے چینی ہم منصبوں کے لیے ایک سادہ پیغام ہے: "ہانگ کانگ کو ہانگ کانگ رہنے دو۔

قومی سلامتی کونسل کی ترجمان واٹسن نے کہا کہ ہم عوامی جمہوریہ چین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرے جو اس نے اپنی مرضی سے قبول کی ہیں۔ امریکہ بلاجواز حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی پر بھی مسلسل زوردیتا ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**