برما میں قتلِ عام کی طویل تاریخ

فائل فوٹو

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ برما کی فوجی حکومت روہنگیا اقلیتی برادری کے قتلِ عام کی مرتکب ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہاں جو کچھ ہوا اسے قتلِ عام ہی کہا جا سکتا ہےاور اس قتلِ عام کے لیے پہلے حالات تیار کیے گئے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی کئی برسوں بلکہ عشروں سے تیاری کی جاتی رہی۔

انسانوں کی تذلیل اور ان کو مٹانے کی کوششیں ایک متواتر عمل کے طور پر جاری رہیں۔ روہنگیا کئی نسلوں سے برما کے معاشرے کا ناگزیر حصّہ رہے ہیں اور پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک منظم طریقے سے ان کے حقوق اور شہریت کو ان سے چھینا گیا۔

برما کی فوج نے 1962 میں سول حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تھا اور حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد روہنگیا اور دیگر نسلی اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکی کے علاوہ ان پر جبرو ستم شروع کر دیا تھا۔

حکومت نے ان کی شہریت سے بھی انہیں محروم کرنا شروع کر دیا اور ان کے خلاف دہشت گردی، جنسی زیادتی اور قتل کی کارروائیوں کے علاوہ ان کی آبادیوں کو تباہ و برباد کر دیا اوران کو بے گھر کر کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ تاریخی طور پر دنیا میں ہونے والے دوسرے قتلِ عام کے واقعات اور برما میں ہونے والے قتلِ عام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روہینگیا کو 'پسو' اور 'کانٹے' کہا گیا، بالکل ایسے ہی ، جیسے تتسیوں کو کاکروچ کہا گیا اور یہودیوں کو چوہوں سے تشبیہ دی گئی تھی۔

وزیرِ خارجہ خارجہ بلنکن نے کہا کہ اس وقت جب قتلِ عام اور انسانیت کے خلاف جرائم روہنگیا پر ڈھائے جا رہے ہیں تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ برما کی فوج کئی عشروں سے دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے قتل، ان کے ساتھ جنسی بد سلوکی اور دیگر مظالم کا ارتکاب بھی کرتی آ رہی ہے۔ اس نوعیت کے مظالم کی خبریں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ یہ واقعات برما کی مختلف ریاستوں میں روا رکھے گئے۔

امریکہ میانمار میں بربریت کے بارے میں آزادانہ تحقیقاتی میکنزم کی سختی سے حمایت کرتا ہے۔ جس کے تحت برما میں ہونے والے بین الاقوامی جرائم کی شہادتوں کو جمع، محفوظ اور ان کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ مستقبل کی جوابدہی کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہم فوج کے موجودہ اور جاری مظالم روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اور ان تمام لوگوں کی رہائی پر زور دے رہے ہیں جنہیں غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ ہم برما کے عوام کی حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو اپنے ملک میں جمہوریت کی واپسی کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ روہنگیا اور فوج کے عتاب کے شکار دوسرے لوگوں کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد جاری رکھے گا تاکہ ان کی فوری ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ امریکہ 2017 سے ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی امداد فراہم کرچکا ہے جس میں تعلیم، صدمات سے دوچار مریضوں کے ذہنی اور نفسیاتی علاج سے لے کر پناہ گاہوں تک کی فراہمی شامل ہے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ متاثرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ میانمار کے لیے آزاد تحقیقاتی میکنزم نے اب تک پندرہ لاکھ سے زیادہ چیزیں اور معلومات جمع کر لی ہیں، جن میں چشم دید شہادتیں، دستاویزات، پیغامات، تصاویر، ویڈیو، جٖغرافیائی نقشے اورسوشل میڈیا صفحات وغیرہ شامل ہیں۔ وہ وقت آنے والا ہے جب ان ظالمانہ افعال کے ذمّہ داروں کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**