حماس کے مالی سہولت کاروں کی نامزدگی

فائل فوٹو


غزہ میں فلسطینیوں کو حماس کے تحت مشکل حالاتِ زندگی اور معاشی حالات کا سامنا ہے یہاں تک کہ دہشت گرد گروپ نے خفیہ سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو میں سینکڑوں ملین جمع کر لیے ہیں۔ حماس ایک پرتشدد ایجنڈا برقرار رکھتی ہے جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔

امریکہ حماس کو فنڈز جمع کرنے اور منتقل کرنے کی صلاحیت سے محروم کرنے اور اسے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے اور انہیں فروغ دینے میں اس کے کردار کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کا پابند ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمۂ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول یا او ایف اے سی نے حماس کے مالیاتی عہدیدار کے ساتھ ساتھ حماس کے تین مالی سہولت کاروں اور چھ کمپنیوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کو نامزد کیا جنہوں نے ایک بین الاقوامی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کے ذریعےدہشت گرد گروہ کے لیے فنڈز جمع کیے ہیں۔

ذیل میں درج افراد اور کمپنیوں کو ترمیم شدہ ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے تحت نامزد کیا گیا ہے جو دہشت گردوں، لیڈروں اوردہشت گرد گروپوں کےعہدیداروں اور دہشت گردوں یا دہشت گردی کی کارروائیوں کو مدد فراہم کرنے والوں کو نشانہ بناتا ہے۔

احمد شریف عبداللہ عودہ 2017 تک حماس کے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کے انچارج تھے اور اس کے بعد انہوں نےحماس کی شوریٰ کونسل کی جانب سے سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کی نگرانی کی۔ 2017 کے وسط میں، اسامہ علی کو سرمایہ کاری کے دفتر کے سربراہ کے طورپرمقرر کیا گیا جہاں سے اس نے حماس کو مالیاتی منتقلی کو مربوط کیا۔

ہشام یونس یحییٰ قفیشہ نے اسامہ علی کے نائب کے طور پر کام کیا اور حماس کے سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو سے منسلک مختلف کمپنیوں کی جانب سے رقوم کی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کے علاوہ عبداللہ یوسف فیصل صابری ایک اکاؤنٹنٹ ہیں جنہوں نے حماس کی وزارت خزانہ میں کئی سالوں تک کام کیا۔

وزارت خزانہ میں دہشت گردی کی مالی معاونت اورمالیاتی جرائم کے شعبے کی نائب وزیرالزبتھ روزن برگ نے کہا کہ یہ نامزدگیاں ان افراد اور کمپنیوں کو نشانہ بناتی ہیں جو حماس کوفنڈز چھپانے اور غیر قانونی ترسیل کے لیے مدد کرتی ہیں۔امریکہ حماس کو فنڈز جمع کرنے اور منتقل کرنے کی صلاحیت کو مسدود کرنے اور خطے میں تشدد کوفروغ دینے اوراسے انجام دینے میں حماس کے کردار کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے پرعزم ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**