حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر صفِ اول کے سات صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون نے آزاد اور کھلے انڈو پیسفک (ہند بحر الکاہل) کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کے مطابق اسی دوران بائیڈن حکومت یورپ اور انڈو پیسفک کے درمیان پل تعمیر کر رہی ہے۔ ’’ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ مشترکہ مسائل اور یکساں تحفظات ہیں، چاہے یہ چیلنجز ہوں یا خطرات یا پھر مواقع ہوں۔‘‘
’’گزشتہ چار برسوں کے دوران ہم نے چین سے متعلق نکتۂ نظر پیدا کرنے کے لیے جس بڑے پیمانے پر ہم آہنگی پیدا کی ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ یہ ہمارا مشترکہ عزم ہے، جو مثال کے طور پر معاشی سلامتی، سیکیورٹی ڈی رسکنگ، بیجنگ کی زائد پیدواری صلاحیت اور تجارت کے لیے اپنائے گئے غیر شفاف طریقوں، حساس ترین ٹیکنالوجی کی برآمد پر ضابطہ کاری کے لیے مل کر توجہ دینے، اقتصادی جبر کے خلاف یکساں مؤقف، معدنیات کی محفوظ فراہمی، عمومی طور پر سپلائی چین اور ان کا تحفظ، اور دنیا میں مل کر پائیدار انفرااسٹرکچر بنانے میں مدد دینے جیسے امور سے متعلق ہیں۔‘‘
وزیرِ دفاع بلنکن نے کہا کہ جی سیون ممالک میں تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔’’ہم زیادہ طاقت ور، زیادہ پر اثر ہوتے ہیں جب ہم مل کر کام کرتے ہیں۔‘‘
’’ایسے معاشی میدان، جب ہم چین سے متعلق تحفظات کی پالیسیوں سے معاملہ کر رہے ہیں، ہم میں سے کسی بھی ملک کا تنہا اٹھایا گیا قدم مشترکہ طور پر کیے گئے اقدامات کے مقابلے میں زیادہ مؤثر نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے، ہم 20 فی صد ہیں یا اتنا ہی دنیا کی پیداوار کا۔ جب ہم جی سیون کے ساتھیوں سے مل کر کوئی اقدام کرتے ہیں تو یہ 50 فی صد سے زیادہ بن جاتا ہے، اور وزن اسی وقت وزن ہوتا ہے جب اسے نظر انداز نہ کیا جاسکتا ہو۔‘‘
بالآخر، جی سیون ’’روس کی دفاعی پیداوار کے چین کے تعاون‘‘ پر فکر مند ہے کیوں کہ یہ ’’روس کو یوکرین میں جارحیت جاری رکھنے کے قابل بنا رہا ہے۔‘‘ خاص طور پر یہ معاملہ بھی تشویش ناک ہے کہ اب جنوبی کوریا بھی روس کے ساتھ یوکرین میں لڑنے کے لیے اپنے فوجی بھیج رہا ہے۔
’’شمالی کوریا اور روس کو بھی ان سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لیے، چین اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، میرے خیال میں آپ ایک چیز ہوتی دیکھیں گے کہ انڈو پیسفک خطے میں بشمول امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان اپنے دفاع اور خطرات سے مقابلے کے لیے صلاحیتیں بڑھانے کی مشترکہ کوششیں کی جائیں گی۔‘‘
’’اور اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان اقدامات کا رُخ چین کی جانب نہیں ہوگا، پھر بھی چین انہیں پسند نہیں کرے گا۔‘‘ یہ کہنا تھا سیکریٹری بلنکن کا۔ ’’ہم سب کو۔۔۔ چین کی طرف دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اسے اختتام تک پہنچائے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔