ایغور جبری مشقت کی روک تھام کے قانون کو نافذ کرنا

فائل فوٹو

سن 1830 کے امریکی قانون جس میں جبری مشقت کے ذریعے تیار کرائے گئے سامان کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی کو صدر بائیڈن نے 2021 میں مزید مضبوط کیا۔

صدر نے ایغور فورسڈ لیبر پرویونشن ایکٹ پر دستخط کیے جو چین کے خود مختار خطے سنکیانگ میں ایغور کمیونٹی کے ہاتھ سے بنی اشیا کی امریکہ درآمد پر پابندی کا نفاذ کرتا ہے۔

بین الاقوامی امور کے لیے امریکی نائب معاون وزیر تھیا لی نے کانگریس کی حالیہ سماعت میں اس خطے کے بارے میں وضاحت کی۔

انہوں نے بتایا کہ سنکیانگ چین کا دور دراز مغربی خطہ ہے اور بلا شبہ وہاں کروڑوں ایغور، نسلی قازق، کرغیز اور دیگر مظلوم گروہوں کے ارکان کو من مانی طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے۔

یو این ایف ایل پی اے کو امریکی حکومت کی انٹر ایجنسی ٹاسک فورس کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے جو جبری مشقت سے بنی اشیا کی درآمد روکنے کے لیے کئی ٹولز استعمال کرتی ہے۔

ان ٹولز میں ان اداروں کی فہرست تیار کرنا شامل ہے جو جوایسے کسی بھی سامان کو کان کنی میں کوئی سامان بنانے میں یا سامان کی تیاری میں کلی یا جزوی طور پر استعمال کرتے ہیں جو سنکیانگ میں جبری مشقت کے ذریعے تیار کیا گیا ہو۔

ابتدائی فہرست میں بیس ایسے اداروں کی شناخت کی گئی۔ فہرست میں اب 50 فی صد تک توسیع ہوگئی ہے۔ ٹاسک فورس جانچ پڑتال اور نفاذ کے لیے اعلیٰ ترجیحی شعبوں، جیسے ٹیکسٹائل، اور پولی سیلیکون اور دوسرے شعبوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن یا سی بی پی سپلائی چینز میں جبری مشقت کے الزامات کی تحقیقات کرکے امریکی مارکیٹ میں جبری مشقت سے بنی مصنوعات کے داخلے کو روکنے کا ذمہ دار ہے۔

ایجنسی، سپلائی چینز کے نظام پر نظر رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہائی رسک اشیا کی تحقیقات کر رہی ہے کہ سپلائی چینز جبری مشقت سے پاک ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹںی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ سنکیانگ سمیت جہاں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری ہے، ہر جگہ جبری مشقت کا مقابلہ کرنے کے لیے بدستور پرعزم ہے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔