سنکیانگ میں مظالم کی قیمت چکانا ہوگی

فائل فوٹو

چینی صدر شی جن پنگ نے ایک حالیہ تقریر میں چین کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ ملک کے سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے میں ’’اسلام کی سینی سیزیشن‘‘ یعنی اسلامی اقدار کو چینی اقدار میں ڈھالنے کے عمل کو جاری رکھے۔

سنکیانگ میں ایغوروں اور دیگر مسلم نسلی اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وضاحت امریکہ نے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے طور پر کی ہے۔ ان مظالم میں جبری مشقت، جبری الحاق، جبری نس بندی، خاندان سے علیحدگی اور حراستی کیمپوں میں قید و بند کی صعوبتیں شامل ہیں۔

عالمی فوجداری انصاف کے لیے امریکی سفیرایٹ لارج بیتھ وان شاک نے سنکیانگ میں ہونے والے جرائم کے مرتکب افراد کے لیے انصاف اور احتساب کے طریقۂ کار کی تشکیل کی جانب توجہ دلائی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ایسا کہنے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ہم خاموش بیٹھے رہیں یا ابھی ہم خاموش ہیں۔ ہمیں ان مظالم کا ذکر کرتے رہنا چاہیے کہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔

سفیر وان شاک نے توجہ دلائی کہ سنکیانگ میں چینی حکومت کی طرف سے کیے گئے جرائم کے دستاویزی ثبوت ’’ناقابل یقین‘‘ ہیں۔

سفیر وان شاک نے کہا کہ ’’ماہرین تعلیم اور آزاد محققین پالیسی ہدایات اور ویب سائٹس کی جانچ کر رہے ہیں۔

گواہ اپنے تجربات بیان کر رہے ہیں۔ این جی اوز(غیر سرکاری تنظیمیں)حراستی مراکز اور مسلمانوں کے تباہ شدہ قبرستانوں اور مساجد کی سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کر رہی ہیں۔ جبری مشقت والی سپلائی چینز کا سراغ لگایا جا رہا ہے اور ان کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

سفیر وان شاک کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ہونے والے جرائم پر امریکی ردِعمل کے لیے دستاویزی ثبوت بہت اہم ہیں۔

امریکی کانگریس نے 2021میں ایغور جبری مشقت کی روک تھام کے قانون کی منظوری دی تھی جس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ سنکیانگ میں کان کنی یا تیار کردہ سامان جبری مشقت کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے اور اس کی امریکہ میں درآمد پر پابندی عائد ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ نے 2020 کے بعد سے عالمی میگنتسکی پابندیوں کے پروگرام کے تحت12 افراد کو نامزد کیا ہے جو سنکیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ چین اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے کئی عہدیداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ویزا پابندیاں عائد کی ہیں۔

محکمہ تجارت نے سنکیانگ میں بدسلوکی کا رویہ اپنانے والے درجنوں چینی اداروں کو امریکی منڈیوں تک رسائی سے روک دیا ہے۔

سفیر وان شاک کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے سنکیانگ سپلائی چین بزنس ایڈوائزری بھی جاری کی ہے جس کا مقصد سنکیانگ میں سپلائی چین اور سرمایہ کاری والے کاروباروں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو نمایاں کیا جا سکے کیوں کہ پورے چین میں جبری مشقت اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں میں ملوث ادارے شامل ہیں۔

سفیر وان شاک نے کہا کہ امریکہ چین اور دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے ذمہ دار افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**