بیس جنوری، بدھ کو جوزف آر بائیڈن جونیئر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 46 ویں صدر کی حثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں۔ وہ جب حلف اٹھا چکے ہوں گے تو ان کی عمر 78 سال اور 61 دن ہوگی اور وہ اب تک اس عہدے پر فائز ہونے والے معمر ترین صدر ہوں گے۔
ان کی نائب صدر سابق سینیٹر کاملا ہیرس اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔ اسی طرح وہ افریقی امریکی اور جنوبی ایشیائی نسل سے تعلق رکھنے والی پہلی نائب صدر بھی ہوں گی۔
بہت سے پہلوؤں سے امریکہ کے 46 ویں صدر کی حلف برداری غیر معمولی نوعیت کی ہوگی۔ روایت کے مطابق منتخب صدر بائیڈن اور نومنتخب نائب صدر کاملا ہیرس کیپٹل کی عمارت کے مغربی حصے پر اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے جہاں سے نیشنل مال کے سبزہ زار کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ 1981 کے بعد سے ہوتا رہا ہے کہ معزز مہمانوں اور کانگریس کے ارکان کے لیے نشستوں کا اہتمام اس جگہ کے زینوں اور صحن میں کیا جائے گا۔
لیکن ماضی میں جیسا کہ ہوتا رہا ہے کہ تقریب کے لیے دو لاکھ یا اس سے زیادہ ٹکٹ سینیٹروں اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان میں تقسیم کیے جاتے تھے تاکہ وہ اپنے اپنے حلقے میں تقسیم کرسکیں، اس سال کووڈ-19 کی پابندیوں کی وجہ سے قانون سازوں کو صرف ایک اضافی ٹکٹ دیا جائے گا اور کیپٹل کی عمارت کے گراؤنڈ پر تین ہزار سے زیادہ لوگ موجود نہیں ہوں گے۔
ماضی میں 18 لاکھ تک لوگ اس تقریب کا نظارہ کرتے رہے ہیں جو نیشنل مال کے سبزہ زار پر امریکہ کی مستقبل کی قیادت کی توثیق کا جشن مناتے تھے۔ لیکن اس سال ایسا نہیں ہوگا۔ حلف برداری کی تقریب کے پہلے حصے کے اختتام کے بعد 80 فی صد پروگرام ورچوئل ہوگا جو ٹیلی ویژن پر دکھایا جائے گا۔
تاہم ماضی کی مانند 10 لاکھ سے زیادہ افراد جو معمول کے مطابق موجود ہوتے تھے وہ شریک نہیں ہوسکیں گے۔ ان میں حلف برداری کی پریڈ اور پاس ان ریویو شامل ہے جو پرامن انتقالِ اقتدار کی علامت ہے جب نیا صدر فوج کے باوردی ارکان کے ایک گروپ کا معائنہ کرتا ہے۔ یہ صدر کے بنیادی فرائض کے عین مطابق ہے یعنی امریکی عوام کو تحفظ فراہم کرنا چاہے وہ بیرونی خطرات ہوں، ملک کے اندر گڑبڑ ہو یا کووڈ-19 ہو۔
اس حلف برداری کے ذریعے صدر امریکی آئین سے اپنی وفاداری کا اعادہ کرتا ہے۔ اس کے ذاتی احساسات، پارٹی سے وفاداری یا مذہبی وابستگی چاہے کچھ بھی ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ ان بنیادی قوانین کی شقوں پر عمل پیرا ہو۔ ایک مرتبہ جب حلف برداری ہوجائے تو وہ چاہے مرد ہو یا عورت، ہر جگہ تمام امریکیوں کے لیے سربراہِ مملکت ہے۔ اس سے قطعِ نظر کہ لوگوں نے کسے ووٹ دیے اور یہ کہ اس کی پالیسیوں سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔
حلف برداری کے بعد صدر کے پیش نظر یہ قومی نصب العین ہوتا ہے کہ "ای پلوریبس یونا" یعنی بہت سارے لیکن متحدہ اکائی۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**