چار جولائی کو امریکہ نے اپنے قیام کی دو سو پینتالیسویں سالگرہ منائی۔ یہ 1776 میں اس دن کی یاد میں منائی جاتی ہے جب 13 برطانوی نوآبادیوں کے نمائندوں نے برطانیہ سے علیحدگی کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے۔
برطانوی بادشاہت سے علیحدگی کا معاملہ برسوں سے چل رہا تھا اور بالآخر دو بظاہر غیر متعلقہ لیکن ایک دوسرے سے منسلک وجوہات سے اس نے جنم لیا۔ اولاً تو یہ کہ انگریز حکومت نے نوآبادیوں پر بہت زیادہ کنٹرول نافذ کرنے کے لئے طویل عرصہ تک مہم چلائی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ برطانوی بادشاہت نے بھاری قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے نو آبادیوں پر ٹیکس لگا دیے تھے۔ ان میں سے بہت سے قرضے 1754 کی فرانسسیسی اور انڈین جنگ کا شاخسانہ تھے۔ یہ فرانس کے ساتھ وقفے وقفے سے ہونے والی صدیوں پر محیط جنگ کا جاری عمل تھا۔
سترہ سو چونسٹھ کے آغاز سے برطانوی پارلیمان نے ٹیکس لگانے شروع کیے تھے جس کا خاص مقصد برطانوی تخت کے لئے نوآبادیوں سے پیسے اکھٹا کرنا تھا۔ اس کی ابتدا چینی سے ہوئی اور بعد میں فہرست میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا، جن میں اخبارات، شیشہ، قانونی دستاویزات، رنگ وروغن اور چائے شامل ہے۔ ہر نئے ٹیکس پر انہیں منظم احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔
بالآخر ٹیکسوں کا معاملہ قابل سزا ٹھیرا اور مظاہرے پرُتشدد ہوگئے اور نتیجتاً حکومت کا ردِعمل زیادہ سخت ہوتا گیا۔ یہ صورتِ حال بوسٹن میں زیادہ مخاصمانہ ہوگئی۔ فروری 1775 میں جب برطانوی پارلیمنٹ نے بوسٹن کی بندرگاہ بند کردی تو یہ گویا آخری تنکا ثابت ہوا۔ بوسٹن نے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ اس طرح اگرچہ امریکہ کی انقلابی جنگ سرکاری طور پر چار جولائی 1776 تک شروع تو نہیں ہوئی لیکن پہلی جنگ 19 اپریل 1775 کو بوسٹن کے ٹھیک مغرب میں لڑی گئی۔
انقلاب کے نتیجے میں برطانوی راج کے تحت جو زیادتیاں ہوئیں، اس وقت کے ناتواں امریکہ نے ان کا تجربہ کیا۔ روشن خیالی کے لبرل تصورات کی حکمرانی سے انھوں نے حکومت اور محکموم طبقے کے درمیان روایتی تعلقات کو تبدیل کر دیا۔ سب سے اعلٰی سطح پر موروثی حکمران طبقے کو منتخب قومی اور ریاستی عہدیداروں سے تبدیل کردیا گیا۔ عام شہریوں نے مقامی اور ریاست کی سطح پر حکمرانی میں بڑھتا ہوا اہم کردار ادا کیا اور جب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوا تو سیاسی شراکت میں بھی اضافہ ہوا۔ دس سال کے اندر اس تصور نے دنیا بھر میں جمہوریت اور آزادی کی تحریکوں کو جلا بخشی۔
تھامس جیفرسن نے جو بعد میں امریکہ کے تیسرے صدر بھی بنے، اعلانِ آزادی میں برطانیہ سے علیحدگی کے فیصلے پر امریکی نوآبادیوں کے مؤقف کا دفاع کیا۔ انھوں نے تحریر کیا کہ جب ایک ہی مقصد کے لیے طویل المدت بنیاد پر زیادتیاں کی جائیں اور جبرو استبداد روا رکھا جائے تو وہ مکمل مطلق العنانیت کے ارادے کا مظہر ہوتا ہے اور پھر یہ لوگوں کا حق اور ان کا فرض بنتا ہے کہ ایسی حکومت کو اکھاڑ پھینکیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**