پولیو مائی لیٹس یا پولیو، ایک مفلوج کردینے والی اور ممکنہ طور پر مہلک متعدی بیماری ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے لگتی ہے۔ پولیو وائرس مرکزی اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے اور چند گھنٹوں میں مکمل طور پر فالج کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے کسی بھی عمر کے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ لیکن پانچ سال سے کم عمر کے بچے خاص طور پر خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔
پولیو سے ویکسین کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔ تاہم ایک مرتبہ جب کسی کو انفیکشن لگ جائے تو پھر اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ 1988 میں صحت کی عالمی اسمبلی نے پولیو کو ختم کرنے کا عہد کیا۔ اس وقت اس بیماری کے سبب 155 ملکوں کے اندر بچپن میں فالج کے سالانہ ساڑھے تین لاکھ کیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔
'یو ایس ایڈ' کے تعاون سے 1994 میں شمالی اور جنوبی امریکہ، سن 2000 میں مغربی بحرالکاہل، 2002 میں یورپ، 2014 میں جنوبی مشرقی ایشیا اور حال ہی میں اس سال افریقہ میں پولیو کے خاتمے میں مدد ملی ہے۔
اگست کے وسط میں افریقہ کو چار سال تک پولیو کے نئے کیسز ظاہر نہ ہونے کے بعد پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا۔ نائیجیریا خطے کا وہ آخری ملک تھا جس نے اس سلسلے میں پولیو کے خاتمے کی تصدیق کے سخت معیار پورے کر لیے اور علاقے کے ان 46 ملکوں میں شامل ہو گیا جنہوں نے صحتِ عامہ کے حوالے سے اس تاریخی سنگِ میل کا جشن منایا۔
اب پولیو کے کیسز کی شرح کو 99.9 فی صد تک کم کردیا گیا ہے اور صرف افغانستان اور پاکستان میں پولیو کے کیسز کا سلسلہ جاری ہے۔
بہت سے ملکوں میں پولیو کے خاتمے کا راستہ آسان نہیں تھا۔ طویل تنازعات، جھوٹی معلومات، بے گھر افراد، دور دراز کے علاقوں میں آباد لوگ اور دیگر چیلنجز کی وجہ سے ایسے ملکوں کی کوششوں میں رکاوٹ آئی ہے جو اس وائرس کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔
پھر بھی اگر بچے کھچے وائرس کو منتقل ہونے سے روکنا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ مستقل اور پائیدار بنیادوں پر کوششیں جاری رکھیں جائیں۔ صرف غیر متزلزل عزم اور مقامی برادریوں، حکومتوں اور عالمی شراکت داروں کی غیر معمولی کاوشوں کے ذریعہ پولیو سے پاک دنیا کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔
ایسے ان گنت ہیلتھ ورکرز، کمیونٹی رہنماؤں اور رضا کاروں کی شراکت سے جو ہر ایک بچے تک رسائی کی اہمیت سے آگاہ ہیں، عالمی پیمانے پر پولیو کے خاتمے میں مدد ملی ہے۔
یو ایس ایڈ کی مدد سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملی ہے کہ 40 کروڑ سے زیادہ بچوں کو ہر سال پولیو سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں۔ اس وقت تقریباً ایک کروڑ نوے لاکھ لوگ چل پھر رہے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مفلوج ہو جاتے۔ اسی طرح 15 لاکھ سے زیادہ لوگ آج زندہ ہیں جو پولیو سے مر سکتے تھے۔
اس سال پولیو کا عالمی دن منانے کی خاص اہمیت بھی ہے، اس لیے کہ افریقہ کے خطے کو پولیو سے پاک قرار دیا جا چکا ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت میں ہوا ہے جب کرونا وائرس کی عالمی وبا کی بنا پر دنیا بھر میں صحت کی ضروری دیکھ بھال میں مستقل خلل پڑ رہا ہے جس میں معمول کے ٹیکے لگانے کا پروگرام بھی شامل ہے۔
مستقبل میں بھی یو ایس ایڈ اور اس کے شراکت کار یہ منصوبہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے جو سبق سیکھا ہے اور پولیو کے خاتمے کی جانب سفر میں جو ڈھانچہ تعمیر کیا ہے، اسے موجودہ عالمگیر وبا اور مستقبل میں متعدی بیماریوں کے تدارک اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر استعمال میں لائیں گے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**