امریکہ اور ایران کے تعلقات میں ستمبر کے مہینے میں مثبت اور منفی دونوں طرح سے پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔
جہاں تک مثبت پہلو کا تعلق ہے ایرانی حکومت نے ان پانچ امریکیوں کو رہا کر دیا جنہیں ایران میں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔
امریکہ نے اس کے بدلے میں امریکہ میں قید پانچ ایرانیوں کو رہا کیا اور انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لیے 6 بلین ڈالر کے ایرانی فنڈز تک ایران کی رسائی کو ممکن بنایا۔ ان فنڈز کو جنوبی کوریا میں منجمد کر دیا گیا تھا۔
ایرانی حکومت کے منفی پہلو کے حوالے سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی حکومت نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے تجربہ کار معائنہ کاروں کی سرکاری نامزدگی کو واپس لے لیا ہے۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اس اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ یہ اقدام آئی اے ای اے کی تصدیقی سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت کو شدید متاثر کرتا ہے جو ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سےمطلوب ہیں۔
امریکہ نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ ایک بیان میں ایران کے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے فقدان کی مذمت کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ صورتِ حال ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب آئی اے ای اے کے سامنے ایران میں غیر اعلانیہ جوہری مواد اور سرگرمیوں سے متعلق سنجیدہ، دیرینہ اور حل طلب سوالات ہیں اور ایران چار سال سے زیادہ عرصے سے ان مسائل پر توجہ دینے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئےکہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کی سرگرمیاں ’’شدید طورپر عدم
استحکام پیدا کرنے والا عنصر ہے اور جو نہ صرف خطے بلکہ اس سے باہر کے ممالک کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہےَ۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’اسی وجہ سے ہم نے عزم کیا ہے اور صدر بائیڈن نے عزم کیا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرپائے گا۔‘‘
وزیر خارجہ بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ یقین رکھتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کا سب سے مؤثر طریقہ سفارت کاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کہتے ہیں کہ ’’ ہم نے ایران کے ساتھ ساتھ یورپی شراکت داروں اور یہاں تک کہ روس اور چین کے ساتھ بھی اس حوالے سے بالواسطہ طور پر کام کرنے کی کوشش کی تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا ہم ایران کے جوہری معاہدے یعنی جے سی پی او اے کی مشترکہ طور پر تعمیل کر سکتے ہیں۔
لیکن ایران ایسا نہیں کر سکا یا نہیں کرے گا۔اس لیے یہ مسئلہ بہت واضح ہے اور مسئلہ خود ایران ہے۔
وزیر خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ ’’ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد بڑھتے ہوئے جوہری خطرے کو کم کرنے کے لیے جو بھی قدم اٹھاتا ہے امریکہ اس کا خیرمقدم کرے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی ایک حالیہ پریس بریفنگ میں اس نکتے پر زور دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ایران کشیدگی میں کمی کے اقدامات کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو وہ سب سے پہلے جو کر سکتا ہے وہ ہے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**