تیرہ مارچ کو آسٹریلیا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کے ساتھ کھڑے ہو کر صدر جو بائیڈن نے 2021 کے سہ فریقی اجلاس میں ایک اہم پیش رفت کا اعلان کیا۔
اوکس سیکیورٹی معاہدے جیسا کے انڈر سیکریٹری برائے آرمز کنٹرول اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی بونی جینکنز نے ایک حالیہ انٹرویو میں وضاحت کی امریکہ، برطانیہ اورآسٹریلیا کے درمیان ایک شراکت داری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس شراکت داری کے بنیادی پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ ہند و بحرالکاہل خطے میں امن وسلامتی کومضبوط بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ "اس سلسلے کا پہلا ستون امریکہ اوربرطانیہ کا یہ فیصلہ ہےکہ آسٹریلیا کو ایٹمی طاقت والی آبدوز فراہم کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔
"دوسرا ستون دیگرممالک کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے سلسلے میں کام کرنا ہے، اوران میں مصنوعی ذہانت اورخودمختاری، سمندر کے پانی کے نیچے کے وسائل ، جدید سائبرصلاحیتیں، کوانٹم صلاحیتیں، ہائپرسونک اور ہائپرسونک مخالف صلاحیتیں شامل ہیں اوراس کے ساتھ الیکٹرانک جنگ کی تیاری بھی جاری رکھنی ہے۔
انڈر سکریٹری جینکنز نے باورکروایا کہ جوہری طاقت رکھنے والی آبدوزیں کئی دہائیوں سے بحرالکاہل میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "امریکہ اوربرطانیہ کے پاس 60 سال سے زیادہ عرصے سے جوہری توانائی والی آبدوزیں ہیں۔ دوسرے ممالک بھی ہیں جوجوہری توانائی والی آبدوزیں استعمال کر رہےہیں، جن میں عوامی جمہوریہ چین، روس، ہندوستان اورفرانس شامل ہیں۔
انڈر سیکریٹری جینکنز نے یہ بھی کہا کہ آسٹریلیا جوہری ہتھیار نہ رکھنے والا ملک ہے اوربدستور جوہری ہتھیاروں کے بغیر رہنے کے لیے پرعزم ہے۔ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کریں گے۔
انڈر سیکریٹری جینکنز نے کہا کہ حقیقیت یہ ہے کہ عالمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے واضح کر دیا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ ہماری اولین ترجیح ہے۔
انڈر سیکرٹری جینکنز نے آخر میں کہا کہ" ہم اسے ایک موقع کے طورپربھی دیکھتے ہیں، سائنس دانوں اورصنعت میں کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ملاحوں کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں اوراپنی مشترکہ صلاحیتوں اورٹیکنالوجی کو اس طرح بروئے کرلائیں کہ جوہمارے مشترکہ مقصد کو فروغ دے ۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**