امریکہ نے 12 نومبر کو مشرقی شام میں ان تنصیبات پر درست فضائی حملوں کے ایک نئے دورکا آغاز کیا جو ایران کے پاسداران انقلاب یا آئی آر سی جی اور اس کے پراکسیوں کے زیر استعمال تھیں۔
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے عراق اور شام میں امریکی اہلکاروں کے خلاف مسلسل حملوں کے جواب میں کیے گئے۔ (یہ حملے ) ابو کمال اور مایادین شہروں کے قریب ایک تربیتی مرکز اور ایک محفوظ رہائش گاہ پر ہوئے۔
یہ تیسرا موقع ہے جب امریکہ نے امریکی اڈوں اور فورسز پر آئی آر سی جی سے وابستہ گروپوں کے 40 سے زیادہ حملوں کے جواب میں یہ کارروائی کی ہے۔
یہ حملے17 اکتوبر سے کئے جا رہے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ صدر بائیڈن نے حملوں کا حکم ’’یہ واضح کرنے کے لیے دیا کہ امریکہ اپنا اپنے اہلکاروں اور اپنے مفادات کا دفاع کرے گا۔
عراق میں تقریباً 2500 امریکی فوجی ہیں جب کہ شام میں ان کی تعداد 900 ہے۔ اس موجودگی کا مقصد مقامی فورسز کو داعش کی مکمل شکست کو ممکن بنانے میں مدد کرنا ہے۔
آئی آر سی جی سے منسلک گروپوں کے حالیہ حملوں سے کم از کم 56 امریکی اہلکاروں کو دماغی چوٹیں یا معمولی زخم آئے۔ امریکی افواج کے تمام زخمی مبینہ طور پر کام پر واپس آ گئے ہیں۔
اسرائیل پرسات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے اور اس کے نتیجے میں غزہ میں حماس کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی فورسز کی کارروائی کے بعد پورے خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
امریکہ نے بارہا ریاستی اور غیر ریاستی عناصر دونوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ تنازع سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ امریکہ نے جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اضافی فضائی دفاع کے ساتھ ساتھ دو طیارہ بردار جنگی گروپ بھی خطے میں تعینات کیے ہیں۔
ایک سینئر امریکی دفاعی اہلکار نے ایک حالیہ پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ عراق اور شام میں امریکی اہلکاروں پر حملوں کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
آئی آر سی جی کی جانب سے استعمال کی جانے والی تنصیبات پر امریکی حملوں کے ساتھ ساتھ متعدد چینلز کے ذریعے ایران کے سینئر رہنماؤں کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے پراکسیز اور ملیشیا گروپوں کو ہدایت دیں کہ وہ ہم پر حملے کرنا بند کریں۔ ‘‘
امریکہ کے وزیر دفاع آسٹن نے 13نومبر کو سول کے دورے کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’یہ حملے بند ہونے چاہئیں، اور اگر انہیں روکا نہیں گیا تو پھر ہم اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدام اٹھانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**