جولائی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ترکی اورشمالی شام کے درمیان باب الحوا سرحدی گزرگاہ کوکھلا رکھنے کے کی دوبارہ اجازت کے حق میں ووٹ دیا۔
لاکھوں شامیوں کو جان بچانے والی انسانی امداد کی فراہمی کے لیے صرف یہ واحد راستہ اب تک کھلا رکھا گیا ہے۔
بدقسمتی سے روس نے سلامتی کونسل میں اپنی اہلیت کا ناجائزاستعمال کیا اور12 ماہ کے لیے دوبارہ اس اجازت کو ویٹو کر دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی قرارداد پیش کی جس نے تجدید کے امکان کے ساتھ مینڈیٹ کو 6 ماہ تک کرنے کی تجویز پیش کی۔ مگریہ قرارداد منظور نہیں ہوئی۔
12 جولائی میں سلامتی کونسل نے آخر کار باب الحوا کراسنگ کھولنے کی مزید چھ ماہ کی اجازت منظور کی۔ امریکہ اوراس کے برطانوی اور فرانسیسی اتحادیوں نےاس کراسنگ کو کھلا رکھنے کے لیے قرارداد کو منظور ہونے کی گنجائش دی لیکن خود اس کی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا کیونکہ یہ تینوں ممالک، این جی اوز، اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل، اورانسانی ہمدردی کی تنظیمیں سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قرارداد لوگوں کو حسبِ ضرورت امداد کی خریداری اور فراہمی کے لیے ناکافی ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے نائب نمائندے رچرڈ ملز نے کہا کہ "روس کے فیصلے کا کوئی جوازاورقابلِ فہم وجہ نہیں تھی کہ وہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کردے جو11 سال سے جاری جنگ سے متاثرہ 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کوانسانی ہمدردی کی امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پیش کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شام میں انسانی ضروریات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ اٹھایا اورامداد کے لیے کہا۔ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں نے بھی مزید امداد کا تقاضہ کیا۔ این جی اوز نے بھی مزید امداد کے لیے کہا۔ یہاں تک کہ افسوسناک طور پردل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ شامی عوام نے مزید امداد طلب کی لیکن ایک ملک نے انسانی ضروریات کو اولیت نہ دینے کا انتخاب کیا۔
سفیر ملز نے روشنی ڈالی کہ "2011 میں شام میں تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے، روس شام کے بارے میں سلامتی کونسل کی 17 قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے۔ اس پورے عرصے میں روس نے انسانی حقوق کی وحشیانہ خلاف ورزیوں اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے صرف اسد حکومت کو جواب دہی سے بچانے کی کوشش کی ہے۔
سفیر ملز نے کہا کہ عالمی برادری کواس خالصتاً انسانی مسئلے کو کسی بھی طرح کی مزید سیاست کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے۔ امریکہ ہر اس ملک کے ساتھ مل کر کام کرے گا جو سب سے زیادہ کمزور لوگوں تک امداد پہنچانے کو ترجیح دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئیے ہم ان شامیوں کو یاد رکھیں جنہوں نے مصائب برداشت کیے ہیں۔ جوایک عشرے سے زیادہ عرصے سے نیویارک میں قائدین کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ سیاست کے مقابلے میں شام کے عوام کی ضروریات کو ترجیح دیں گے ۔ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم یہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اسی لیےشامی عوام نجات کے لیے ہم پراعتماد کر رہے ہیں۔
شامی عوام کے ساتھ امریکہ کا عزم مضبوط ہے۔ اب بین الاقوامی برادری کو اکٹھا ہونا چاہیے اوراس خالصتاً انسانی مسئلے کو مزید سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**