شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ

فائل فوٹو

امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا(شمالی کوریا) کے ساتھ بغیر کسی پیشگی شرط کے جوہری مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔

لیکن جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے حال ہی میں ایسپن سیکیورٹی فورم میں کہا کہ ’’ہمیں جو جواب ملا وہ یہ کہ اس کی طرف سے ایک کے بعد ایک میزائل لانچ کیا گیا۔‘‘

شمالی کوریا نے2022 کے آغاز سے اندازاً ایک سو میزائل داغے ہیں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہے ۔

وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ شمالی کوریا کی اشتعال انگیز کارروائیوں اور ہٹ دھرمی کے جواب میں امریکہ ’’ غیر فعال نہیں رہا ہے۔

بلنکن نے کہا کہ ’’جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ ہماری شراکت داری اور اتحاد اور بھی مضبوط اور گہرا ہوا ہے اور ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات اٹھائے ہیں کہ ہم اپنا دفاع کر سکیں، اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کا دفاع کر سکیں اور شمالی کوریا کی کسی بھی جارحیت کو روک سکیں۔‘‘

ان گہرے سہ فریقی تعلقات کے آثار جون میں سنگاپور میں ملے جہاں تینوں ممالک کے وزرائے دفاع کی ملاقات ہوئی اور انہوں نےشمالی کوریا کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور میزائل پروگراموں پر اپنے خدشات کو ’’ٹھوس سہ فریقی تعاون کے ذریعے‘‘ دور کرنے کا عہد کیا اورجزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے قریبی تعاون کا وعدہ کیا۔

چوبیس جولائی کو جنوبی کوریا میں جوہری طاقت سے چلنے والی امریکی آبدوز کی آمد کے ساتھ مضبوط تعاون کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے کئی دہائیوں میں پہلی بار جوہری ہتھیاروں سے لیس امریکی آبدوز جنوبی کوریا میں لنگر انداز ہوئی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا میزائل داغے جانے کی پیش بندی سے متعلق ڈیٹا کو شیئر کرنے کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں اور مل کر مزید باقاعدہ فوجی مشقوں کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ درحقیقت، شمالی کوریا نے بار بار اشتعال انگیزیوں کے ساتھ جس ردعمل کا مظاہرہ کیا ہےاس سے ہمارا کام مستحکم ہوا ہے کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم خود اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ ‘‘

امریکی وزیر خارجہ نے توجہ دلائی کہ ہم ایک اور راستے کا انتخاب کر رہے ہیں اور وہ چین کو اس بات پرقائل کرنے کی کوشش ہے کہ وہ شمالی کوریا کو’’ مذاکرات میں شامل کروانے میں ہماری مدد کرے تاکہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے مشترکہ تصور کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘‘

وزیر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ’’ میں نے چینی ہم منصبوں کے ساتھ جس بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے ، وہ یہ ہےکہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کا شمالی کوریاپر اثرورسوخ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اسے شمالی کوریا سے بہتر تعاون حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘

وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ اگر عوامی جمہوریہ چین مدد کرنے سے قاصر ہے یا مدد کرنے کو تیار نہیں ہےتو امریکہ خود اپنے اور جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع کو مضبوط کرتا رہے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**