یمن کی صورتِ حال

فائل فوٹو

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یمن میں گزشتہ سال اپریل کے اوائل میں نافذ کی گئی جنگ بندی سے ملک کے حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جنگ بندی کا اصل دورانیہ دو ماہ کا تھا جس میں 2 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی۔ تاہم معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی صورتِ حال جنگ بندی سے پہلے کی سطح جیسی نہیں اور شہری ہلاکتیں بھی کم ہیں۔

یمن کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈبرگ نے کہا کہ ’’فریقین حل تلاش کرنے کے لیے عام طور پر رضامندی کا اظہار تو کرتے رہتے ہیں لیکن اس آمادگی کو ابھی بھی ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

خاص طور پر پیش رفت کے لیے ایک واضح معاہدہ درکار ہے جس میں یمن کے لیے ایک جامع سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنا شامل ہے۔

ان امید افزا علامات کے باوجود یمن میں جاری حالات سیاسی تصفیے اوردوبارہ لڑائی کی طرف پیش رفت کی ایک ملی جلی صورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ایک طرف تو یمن کو دنیا کے بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں تقریباً 80 فی صد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے حال ہی میں 1.2 بلین ڈالر کے عطیے کا وعدہ کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’امریکہ سعودی عرب کی جانب سے جمہوریہ یمن کی حکومت کے لیے بجٹ سپورٹ میں 1.2 بلین ڈالر کے حالیہ اعلان کا خیرمقدم کرتا ہے کیونکہ اس سے سنگین اقتصادی صورتِ حال کے بدترین نتائج کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے: ’’ یمن کے معاشی اور انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے زیادہ توجہ اور مالی مدد کی ضرورت ہے۔ خاص طور پرایک ایسے وقت پر جب یمن میں اقوامِ متحدہ کے امدادی اقدامات کو بدستور کم فنڈنگ کا سامنا ہے ۔پھر بحری جہاز رانی پر حوثیوں کے حملے بھی انسانی بحران کو بڑھا رہے ہیں۔

ہم ان بلا جواز حملوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں جو بنیادی خدمات کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے تیل کی برآمد کے انتہائی ضروری راستوں میں روکاوٹ ڈالتے ہیں۔

ایک جانب تو اقوامِ متحدہ کے عملے کے پانچ ارکان کو حال ہی میں ایک انتہا پسند گروپ نے رہا کیا تھا جن کو فروری 2022 میں اغوا کیا گیا تھا۔ تاہم دوسری طرف متعدد افراد اب بھی قید میں ہیں۔

سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’امریکہ اقوامِ متحدہ کے ان پانچ اہلکاروں کی رہائی کا خیرمقدم کرتا ہے جنہیں گزشتہ سال جنوبی صوبے ابیان سے اغوا کیا گیا تھا۔‘‘

گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’متعدد بے گناہ لوگ اب بھی حراست میں ہیں اور جن میں غلط طریقے سے ہدف بنائے گئے افراد اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ امریکہ کے مقامی طور پر ملازمت کرنے والے عملے کے ارکان کو صنعاء میں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے حراست میں لیا گیا ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جنہیں ناحق قید میں رکھا گیا ہے۔ ان میں 11 یمنی بہائی اور لیوی مرحبی شامل ہیں ۔‘‘

سفیر تھامس گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ ’’ بالآخر فریقین کے درمیان پائیدار اور جامع سیاسی حل ہی یمنی عوام کے مصائب کو کم کر سکتا ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**