برما کی فوج نے یکم فروری 2021 کے قومی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور تین ماہ بعد فوج نے بغاوت کی اور ملک کے منتخب سویلین رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے کی زیادہ تر آبادی پرامن احتجاج کے لیے باہر نکل آئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
دوسری جانب حکمراں جنتا بڑھتے ہوئے وحشیانہ طریقے استعمال کرتے ہوئے احتجاج کو کچلنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ سمیت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 13 اراکین نے حکومت کے اقدامات کی مذمت کرنے والے ایک مشترکہ بیان میں توجہ دلائی کہ ’’گزشتہ مہینوں میں پورے میانمار میں انتہائی تشدد دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘ سلامتی کونسل کے 13 اراکین نےاس بیان پر دستخط کیے جب کہ روس اور چین کے ساتھ ساتھ بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اس مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’میانمار میں فوج کی طرف سے یکم فروری 2021 کو نافذ کی گئی ایمرجنسی کے ڈھائی سال سے زائد عرصے پر ہمیں تشویش ہے جس کا تعلق میانمار کی صورتِ حال اور میانمار کے عوام پر اس کے اثرات سے ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ میں امریکی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’برما کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے ہائی کمشنر کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ فوجی حکومت نے فضائی حملوں میں گنجان آبادی والے علاقوں کو مسمار کرتے ہوئے شہریوں کو مسلسل نشانہ بنایا ہے۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ میانمار کے لیے انسانی حقوق کی کونسل کے ایک آزاد تحقیقاتی میکنزم کی اسی طرح کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس بات کے پختہ ثبوت موجود ہیں کہ برما کی فوج اور اس سے منسلک ملیشیا نے متعدد پر تشدد جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے ۔ ان میں فضائی بمباری کے ذریعے شہریوں پر اندھا دھند حملے بھی شامل ہیں۔‘‘
برما کے فوجی رہنماؤں نے بغاوت کے صرف دو ماہ بعد جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی دس رکنی تنظیم آسیان کی جانب سے پیش کیے گئے منصوبے پر اتفاق کیا۔
اس منصوبے میں تشدد کے فوری خاتمے اور آسیان کے ایلچی کی ثالثی میں تمام فریقوں کے درمیان بات چیت کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ اس کے بعداقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2669 منظور کی جس میں برما میں تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے، ضبط وتحمل پر زور دیا گیا ہے اور بلا جواز حراست میں لیے
گئے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں آسیان پلان پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق قرارداد 2669 پر عمل درآمد کے حوالے سے پیش رفت کافی نہیں۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’ حکومت کے ہولناک مظالم بند ہونے چاہئیں۔ برمی فوجی حکومت کی ہٹ دھرمی اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے تناظر میں اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل قرارداد 2669 سے آگے بڑھ کر کارروائی کرے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’ ہم برما کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں کیوں کہ وہ امن، جمہوری حکومت اور قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**