گیارہ جولائی کو پورے کیوبا میں جمہوریت کے حق میں بڑے مظاہروں کے بعد سرگرم کارکنوں نے 15 نومبر کو دوسری ملک گیر ہڑتال کا منصوبہ بنایا تاہم کیوبا کی حکومت نے مظاہروں پر پابندی لگا دی اور مظاہرین کو پولیس اور سیکیورٹی ایجنٹوں نے ان کے گھروں سے نکلنے سے روک دیا۔
تقریباً 87 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور 11 اب بھی حراست میں ہیں۔ گروپ کے سب سے زیادہ نمایاں نظر آنے والے رہنما، ڈرامہ نویس یونیور گارشیا اکیلیرا نے اسپین میں جلاوطنی اختیار کرلی۔
کیوبا کی حکومت کی جانب سے پرامن مظاہرین کو نشانہ بنانے کے ردِعمل میں محکمہ خارجہ نے کیوبا کے نو عہدیداروں کے خلاف ویزے کی پابندیاں لگادیں۔ یہ افراد جبر و استبداد اور غیر منصفانہ طور پر کیوبا کے لوگوں کی آواز کو خاموش کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔
محکمہ خارجہ نے یہ کارروائی صدارتی فرمان 5370 کے مطابق کی جس کے تحت یہ افسران اور کیوبا کی حکومت کے ملازمین امریکہ میں غیر تارکینِ وطن کی حیثیت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ان نو عہدیداروں میں وزارتِ داخلہ اور انقلابی مسلح افواج کے اعلیٰ ارکان شامل ہیں۔
پندرہ نومبر سے قبل کے دنوں میں کیوبا کی حکومت نے سرکاری سرپرستی میں ہجوم کے ذریعہ سرگرم کارکنوں کوتنگ کیا، صحافیوں اور اپوزیشن کے ارکان کو ان کے گھروں میں محدود کردیا اور صحافیوں کے شناختی کارڈ منسوخ کردیے جس کا مقصد پریس کی آزادی کو دبانا تھا۔ ساتھ ہی کیوبا کے شہریوں کو جنہوں نے پرامن احتجاج کی کوشش کی من مانے طور پر حراست میں لے لیا گیا۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ جن لوگوں کے خلاف پابندیاں لگائی گئی ہیں انہوں نے کیوبا کے لوگوں کو آزادیٔ اظہار اور پرامن اجتماع کے آفاقی حقوق سے محروم کردیا تھا۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ ویزے کی پابندیاں کیوبا کے لوگوں کی حمایت اور نہ صرف حکومت کے عہدیداروں بلکہ ایسے اہلکاروں کو جوابدہ ٹھیرانے کے لیے ہمارے مقصد کو آگے بڑھاتی ہیں جو جمہوریت اور انسانی حقوق پر ضرب لگانے میں حکومت کی معاونت کرتے ہیں۔
امریکہ اپنے تمام سفارتی اور اقتصادی ہتھیاروں کو بدستور استعمال کرتا رہے گا تاکہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کی خاطر دباؤ ڈالا جا سکے اور کیوبا کے لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آزادی اور احتساب کے ان کے مطالبے کی حمایت کی جا سکے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**