ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز کی حالیہ کشیدگی کی وجہ سے، صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر وزیر دفاع لائیڈ آسٹن مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی دفاعی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے اضافی اقدامات کر رہے ہیں۔
جیسا کہ نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان جان کربی نے کہا "عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کی جانب سے راکٹ اور ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا ہے جہاں امریکی فوجی اہلکار موجود ہیں اور ہمیں آنے والے دنوں میں ان حملوں میں اضافے کے کسی امکان کےبارے میں گہری تشویش ہے۔"
"وزیر دفاع نے دو طیارہ بردار اسٹرائیک گروپس کو خطے میں بھیجنے کی ہدایت کی ہے، اور اب ہم خطے میں امریکی اڈوں پر فضائی دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے مزید سازوسامان بھیج رہے ہیں۔"
مسٹر کربی نے کہا کہ امریکہ پوری طرح سے باخبر ہے کہ ایرانی حکومت پاسداران انقلاب کے ذریعے حماس اور حزب اللہ سمیت اپنے حمایتی گروہوں کی مدد کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایران ان واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور بعض صورتوں میں، ان حملوں کو فعال طور پر سہولت فراہم کر رہا ہے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جو اس تنازع کا فائدہ اپنے یا ایران کے مفاد کے لیے اٹھانا چاہتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ایران کا مقصد یہاں کسی حد تک انکار کو برقرار رکھنا ہے، لیکن ہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم خطے میں اپنے مفادات کو لاحق کسی خطرے کو چیلنج کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔
جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا ہے، کسی بھی مخالف قوت کے لیے جو اس تنازعہ کو بڑھانا یا پھیلانا چاہ رہی ہے ، ہمارا پیغام بہت آسان ہے: ایسا نہ کریں۔ "
وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ موجودہ تنازعے کا ممکنہ پھیلاؤ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں امریکہ کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کرنا اشتعال انگیزی نہیں بلکہ باز رکھنے کے لیے ہے۔
سیکریٹری بلنکن نے یہ بھی کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں لوگوں کی اکثریت حماس اور حزب اللہ سے مختلف نقطہ نظر کی پیروی کرنا چاہتی ہے۔
"وہ ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جہاں ممالک مل کر کام کر یں ، جہاں تعلقات معمول کے مطابق ہوں، جہاں وسیع تر ہم آہنگی ہو ، جہاں لوگ مل کر کام کریں ، اکٹھے تعلیم حاصل کر یں ، سفر اور کاروبار کر یں ۔۔ متبادل بھی اتنا ہی شفاف اور بہت واضح ہے:وہ حماس ہے، حزب اللہ ہے، ایران ہے، تباہی ہے، موت ہے، دہشت گردی ہے، تاریکی ہے۔"
وزیر خارجہ نے کہا کہ جیسا ہم موجودہ بحران سے گزر رہے ہیں، ہمیں پہلے والے نقطہ نظر کو زندہ رکھنا چاہیے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**