صدر جو بائیڈن نے حماس کے ہولناک حملے کے بعد جس میں 1300 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد کو یرغمال بنایا گیا، اسرائیل کے دورے سے واپسی کی شام امریکی عوام سے خطاب کیا۔
صدر نے باور کروایا کہ حماس کی طرف سے شروع کی گئی "قطعی نوعیت کی برائی" میں یوکرین کے لوگوں پر تقریباً 20 ماہ کی جنگ، المیے اور بربریت کی بازگشت سنائی دیتی ہے - لوگ جو پوٹن کے ہر طرف سے کیے گئے حملے کے بعد سے بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
حماس اور پوٹن مختلف خطرات کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن ان میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ دونوں پڑوسی جمہوریت کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں، مکمل طور پر ختم۔
حماس - اس کا خاص مقصد اسرائیل کی ریاست کی تباہی اور یہودی لوگوں کا قتل ہے۔ حماس فلسطینی عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔ حماس فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر تا ہے اور ان کی وجہ سے بے گناہ فلسطینی خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اسی دوران، صدر بائیڈن نے کہا کہ پوٹن، یوکرین کی اجتماعی قبروں اور ہزاروں یوکرینی بچوں کو ان کے خاندانوں سے زبردستی جدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ پوٹن اس سے انکار کرتے ہیں کہ یوکرین کو کبھی ایک حقیقی ریاست کا درجہ حاصل رہا ہے۔
صدر نے کہا کہ "اسرائیل اور یوکرین کی کامیابی کو یقینی بنانا، امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے اہم ہے۔"
"تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ جب دہشت گرد اپنی دہشت کی قیمت ادا نہیں کرتے، جب آمر اپنی جارحیت کی قیمت ادا نہیں کرتے، تو وہ مزید افراتفری، موت اور مزید تباہی پھیلاتے ہیں۔ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں، اور امریکہ اور دنیا کے لیے اس کی قیمت اور خطرات بڑھتے رہتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’امریکی قیادت ہے جو دنیا کو یکجا رکھتی ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ یہ امریکی اتحاد ہیں جو ہمیں، امریکہ کومحفوظ رکھتے ہیں۔ امریکی اقدارہیں جو ہمیں ایک ایسا پارٹنر بناتی ہیں جس کے ساتھ دوسری قومیں کام کرنا چاہتی ہیں۔اگر ہم یوکرین سے کنارہ کرتے ہیں، اگر ہم اسرائیل سے منہ موڑ لیتے ہیں، تو یہ سب خطرے میں پڑ جائے گا اور ایسا کرنا قابلِ قدر نہیں۔"
امریکہ کی قومی سلامتی کی ضروریات کو پورا کرنے اور اسرائیل اور یوکرین سمیت اس کے اہم شراکت داروں کی مدد کے لیے صدر کانگریس کو فوری بجٹ کی درخواست بھیج رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم حماس جیسے دہشت گردوں اور پوٹن جیسے آمروں کو جیتنے نہیں دے سکتے اور نہ ہی ایسا ہونے دیں گے۔ ’’میں قطعاً ایسا ہونے نہیں دوں گا۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**