امریکہ کو ایران میں پھانسیوں کی تعداد اور اس سزا کا فیصلہ دینے والے ناقص عدالتی عمل پر تشویش ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اس تشویش کا اظہارایک ایسے وقت پر کیا جب اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ کی جانب سے اگست میں پھانسیوں میں تیزی سے اضافے کی اطلاع دی گئی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے ہائی کمشنرکے دفتراو ایچ سی ایچ آر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں ماہرین نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پھانسی کی سزا کو ’’فوری طور پر بند‘‘ کرے۔
ترجمان ملر نے کہا کہ ’’ہم ایران میں پھانسیوں کی تعداد کے بارے میں فکر مند ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پھانسی کی اس سزا پر عمل درآمد کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے عدالتی عمل کا خاتمہ ہے جو کسی بھی طور مقدمات کے منصفانہ فیصلے دے سکتا ہے۔ اسے کسی بھی طرح سے آزادانہ کام کرنے والے ادارے کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ انہیں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اگست کے دوران ایران میں 93 پھانسیوں کی سزائیں دی گئیں جن میں سے نصف کا تعلق منشیات کے جرم سے تھا۔
ماہرین نے کہا کہ منشیات کے جرم میں سزائے موت بین الاقوامی معیارکی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید توجہ دلائی کہ منصفانہ مقدمے کی سنگین خلاف ورزیوں اور مناسب (منصفانہ) عمل کے حقوق کی رپورٹوں کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران میں جس انداز میں سزائے موت رائج ہے وہ غیر قانونی پھانسی کے مترادف ہے۔
ایران میں منشیات واحد جرائم نہیں ہیں جن کے نتیجے میں سزائے موت ہوسکتی ہے۔ حفاظتی جرائم کے تحت کی جانے والی کارروائیاں بھی اس میں شامل ہیں جیسے ’’زمین پر بدعنوانی پھیلانا‘‘ اور ’’خدا کے خلاف جنگ‘‘ قرار دی جانے والی کارروائیوں پر بھی پھانسی جیسی حتمی سزا دی جاتی ہے۔ جن مبہم الزامات کی او ایچ سی ایچ آر نے نشاندہی کی ہے انہیں حکومت کے مخالفین پر بھی لگایا گیا ہے اوریہ ’’بین الاقوامی معیار کی واضح خلاف ورزی‘‘ ہے۔
اقوامِ متحدہ نے توجہ دلائی ہے کہ ایسے ہی ایک مخالف رضا رسائی تھے جو یارسانی عقیدے کے ایک کرد ایرانی تھے جنھیں 2022 میں مہسا امینی کی پولیس نے حراست میں موت کے بعد بڑے پیمانے پر ’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ نامی مظاہروں میں شرکت کے لیے گرفتار کیا تھا۔ رسائی کو 6 اگست کو پھانسی دی گئی تھی۔
ایران کے لیے خصوصی ایلچی کے دفتر نے رسائی کی پھانسی کی ’’سختی سے مذمت‘‘ کی اور سوشل پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا کہ ’’تہران کی جانب سے عورت، زندگی، آزادی کے مظاہرین کے خلاف سزائے موت کا مسلسل استعمال قابل مذمت ہے جو جعلی مقدمات اور جبری اعترافات کے بعد دی جاتی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے کہا کہ ایران جس طرح سے سزائے موت دیتا ہے وہ ’’انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے جو ہم دیکھ رہےہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ان اقدامات کے لیے ایران کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے پابندیاں نافذ کرتے رہتے ہیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔