Accessibility links

Breaking News

ایران کے ساتھ سفارت کاری اب بھی ممکن ہے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران اور سعودی عرب نے، جو مشرقِ وسطیٰ میں بہت سے تنازعات پر طویل عرصے سے ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں، حال ہی میں براہِ راست تبادلۂ خیال کیا۔ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس تبادلۂ خیال سے دونوں فریقوں کے درمیان مسائل پر توجہ دینے کے لیے ایک بنیاد فراہم ہو سکے گی اور ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور کام بھی کریں گے۔

امریکہ نے اس خبر کا خیرمقدم کیا ہے۔ محکمۂ خارجہ میں مشرقِ قریب کے امور کے بیورو میں ایران اورعراق کے لیے نائب معاون وزیرِ خارجہ جینیفر گوئٹو نے کہا کہ ہم کسی بھی ایسے براہِ راست مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہیں جس سے علاقے میں وسیع تر امن اور استحکام حاصل کیا جا سکے۔

امن اور استحکام کے مفاد میں بھی امریکہ نے بارہا اپنی ان امیدوں کو واضح کیا ہے کہ تہران امریکہ اور پی فائیو پلس ون کے ملکوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے پرعمل درآمد کے سلسلے میں امریکہ اور ایران کی واپسی کے بارے میں تبادلۂ خیال شروع کرے گا۔ اس معاہدے کا تعلق مشترکہ جامع پلان آف ایکشن سے ہے جسے 'جے سی پی او اے' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سال ویانا میں بات چیت کے چھ ادوار ہو چکے ہیں تاہم جون کے بعد سے وہ تعطل کا شکار ہیں اور انہیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے کسی تاریخ پر ایران نے ابھی تک رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔

اسی دوران جوہری معاملات کے حوالے سے ایران کے خلاف امریکہ کی تعزیرات بدستور قائم ہیں اور ایران نے 'جے سی پی او اے' کے دائرۂ کار سے بڑھ کر اپنے ایٹمی پروگرام کو خاصی وسعت دے دی ہے۔

ایک حالیہ پریس بریفنگ میں وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا کہ ویانا میں امریکہ نے یورپی شراکت داروں اور چین اور روس کے ساتھ مذاکرات میں اس بات کا اظہار کیا کہ ہم 'جے سی پی او اے' پر عمل درآمد دوبارہ شروع کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں بشرطیکہ ایران بھی ایسا ہی کرنے پر آمادہ ہو اور اب تک ایرانیوں نے ایسا کرنے پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ گیند اب ان کے کورٹ میں ہے لیکن ایسا طویل عرصے تک نہیں چل سکتا۔ ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے 'جے سی پی او اے' کی خلاف وزی کر رہا ہے اور زیادہ جدید سینٹری فیوجز تیار کر رہا ہے۔ ان کے بقول ایران 20 فی صد بلکہ 60 فی صد تک افردوہ یورینیم کے ذخائر جمع کر رہا ہے جو 'جے سی پی او اے' کی شرائط کی محض خلاف ورزی ہے اور کسی مرحلے پر یہ معاہدے کی نفی کا سبب بن سکتی ہے۔

امریکہ بدستور سمجھتا ہے کہ سفارت کاری اس بات کو یقینی بنانے کا بہترین راستہ ہے کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ وقت محدود ہے اور مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری امیدیں اور توقعات یہ ہیں کہ اس معاملے میں ہمارے تمام شراکت دار ممالک ایران پر یہ دباؤ ڈالیں گے کہ وہ تیزی کے ساتھ معاہدے میں واپس آئے، اور اس پر نظر رکھی جائے کہ 'جے سی پی او اے' میں اب بھی ہماری واپسی ہو سکتی ہے یا نہیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG