Accessibility links

Breaking News

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ویانا میں ایران نیوکلیئر سمجھوتے پر باہمی عمل درآمد دوبارہ شروع کرنے سے متعلق مذاکرات جاری ہیں۔ اس سجمھوتے کو باضابطہ معنوں میں مشترکہ جامع پلان اف ایکشن یا 'جے سی پی او اے' کہا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ نے 2018 میں اس سمجھوتے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، ایران پر تعزیرات کا دوبارہ نفاذ کر دیا تھا اور نئی تعزیرات بھی لگا دی تھیں۔

اس کے بعد سے معاہدے کے تحت ایران نے خود اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی اور 'جے سی پی او اے' تعطل کا شکار ہو گیا۔

اب ایران اور امریکہ دونوں نے اس مشترکہ مقصد کا اظہار کیا ہے کہ وہ 'جے سی پی او اے' کی شرائط پر باہمی عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے بارے میں حالیہ مذاکرات کی صدارت یورپی یونین کر رہا ہے اور اس میں ایران، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شریک ہیں جب کہ اس میں امریکہ کی بالواسطہ لیکن اہم شراکت بھی شامل ہے۔

ایک پریس بریفنگ میں محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے مذاکرات کو مثبت اور کاروباری نوعیت کا قرار دیا۔ کچھ پیش رفت ہوئی لیکن ابھی طویل فاصلہ طے کرنا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہم نے اندازے سے زیادہ فاصلہ طے کر لیا ہے۔

'جے سی پی او اے' کے مشترکہ کمیشن نے جو مذاکرات پر نظر رکھتا ہے حال ہی میں ایک تیسرے ماہر ورکنگ گروپ کا اعلان کیا ہے جو مختلف اقدامات کی ممکنہ ترتیب پر نگاہ رکھے گا جو 'جے سی پی او اے' میں امریکہ کی ممکنہ واپسی اور اس پر مکمل اور مؤثر عمل درآمد کے لیے درکار ہے۔ دو دوسرے گروپ تعزیرات کو اٹھانے پر اور ایران کی جانب سے نیوکلیئر امور سے متعلق اس کے وعدوں پر پھر سے عمل درآمد کے معاملے پر توجہ دے رہے ہیں۔

ترجمان پرائس نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ مالے امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں جو ان اقدامات سے متعلق جو معاہدے پر باہمی ردِ عمل کے لیے ایران اور امریکہ کو لینے چاہئیں، ٹھوس طریقۂ کار کا جائزہ لے رہے ہیں۔

مسٹر پرائس نے یہ واضح کیا کہ جیسا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ اس وقت تک تعزیرات نہیں اٹھائے گا جب تک کہ ہم پر یہ عیاں نہ ہو جائے اور ہمیں اعتماد نہ ہو کہ ایران معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد شروع کردے گا اور اپنے نیوکلیئر پروگرام کو ترک کردے گا اور یہ بھی کہ یورینیم کی افزودگی کی سطح کو اور اپنے ملک میں افزودگی کے دائرے کو کم کردے گا۔

ترجمان پرائس نے کہا کہ عمل درآمد برائے عمل درآمد ہی وہ مقصد ہے جس پر ویانا میں فی الوقت مذاکراتی ٹیم توجہ دے رہی ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG