انسانوں کی تجارت امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کی ضمن میں ایک غیر جانب دارانہ تشویش کا معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سال کا آغاز صدارت کے عہدے کی تبدیلی سے ہوا تو یہ غلامی اور انسانی تجارت کا قومی مہینہ بھی تھا، جو گزشتہ 11 سال سے صدارتی فرمانوں کے ذریعہ امریکہ میں منایا جاتا ہے۔
محکمۂ خارجہ نے تقریب حلف برداری کے دن اس بارے میں اعلان کیا۔ آنے والے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے انسانی تجارت کے خلاف امریکہ کی جدوجہد کا تعلق صدر ابراہم لنکن کے عہد سے بتایا۔ وزیر خارجہ بلنکن نے جب یکم فروری 2021 کو قومی آزادی کا دن قرار دیا تو انھوں نے کہا کہ صدر لنکن نے 150 سال سے زیادہ عرصہ پہلے آزادی کی نوید سنائی تھی لیکن آج بھی دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ 49 لاکھ لوگ انسانوں کی تجارت کرنے والوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے انسانوں کی تجارت سے متعلق محکمۂ خارجہ نے اپنی رپورٹ میں ان متعدد ملکوں کے نام گنوائے ہیں جو بچوں کو فوجیوں کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ان کی بھرتی کرتے ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، برما، کیمرون، ڈیموکرٹک ری پبلک آف کانگو، ایران اور عراق شامل ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ انسانوں کی تجارت کرنے والے کس حد تک جنسی استحصال میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ مثلاً رپورٹ کے مطابق کیوبا میں حکومت نے بیگار یا جنسی تجارت کے تمام طور طریقوں کو جرائم کے زمرے میں شامل نہیں کیا۔ ایران میں اس مدت کے دوران جب کہ یہ رپورٹ تیار کی گئی، فوجیوں کے طور پر بچوں کی بھرتی کا کام سرکاری پالیسی یا ایک طریقۂ کار کے تحت بدستور چل رہا تھا۔ ساتھ ہی سرکاری عہدیدار بڑوں اور بچوں کی جنسی تجارت کا کام بلا روک ٹوک مسلط کیے ہوئے تھے۔
محکمۂ خارجہ کے مطابق 20 سال سے زیادہ عرصہ پہلے انسانوں کی تجارت کا شکار بنے والوں کے تحفظ یا ٹی وی پی اے کے ایکٹ مجریہ 2000 میں امریکہ کے اس عہد کو اجاگر کیا کہ ملک کے اندر اور بین الاقوامی طور پر جدید دور کی غلامی کا قلع قمع کیا جائے گا۔ اس غیر جانب دارانہ قانون کے ذریعے امریکہ نے اس بنیادی امنگ کا اعادہ کیا کہ لوگ ہمیشہ کے لیے آزاد ہیں، جیسا کہ آزادی کے فرمان میں درج ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**