Accessibility links

Breaking News

روہنگیا کی حالتِ زار پر توجہ مرکوز رکھنے کی کوششیں


بنگلہ دیش میں واقع ایک کیمپ میں روہنگیا پناہ گزین کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ (فائل فوٹو)
بنگلہ دیش میں واقع ایک کیمپ میں روہنگیا پناہ گزین کھانا لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پانچ سال پہلے برما کی سیکیورٹی فورسز نے مسلمان روہنگیا نسلی گروپ کی آبادی کے خلاف تشدد اور نسلی تطہیر کی مہم شروع کی تھی۔ بعض حملے اکتوبر 2016 اور جنوری 2017 کے درمیان ہوئے۔ ایک دوسری لہر اگست 2017 میں شروع ہوئی۔ ان حملوں کے باعث 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین برما چھوڑ گئے ہیں۔

اس وقت تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش میں کاکسز بازار کے ایک کیمپ میں مقیم ہیں۔ مزید ڈیڑھ لاکھ علاقے کے دوسرے ملکوں میں قیام پذیر ہیں جن میں بھارت، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں۔ تقریباً چھ لاکھ روہنگیا برما میں موجود ہیں جنھیں وہاں ایک سوچے سمجھے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ اندرونِ ملک بے گھر ہوگئے ہیں جن میں سے اکثر کو راخائین کی ریاست میں کیمپوں کے اندر پابند کردیا گیا ہے۔

بائیس اکتوبر کو امریکہ، روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے پر بین الااقوامی ردِعمل کو جاری رکھنے کے لیے ایک ورچوئل کانفرنس کا شریک میزبان تھا۔ اس کا مقصد دوسرے ملکوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا کہ وہ اس جاری بحران کے لیے کھل کر عطیات دیں اور ساتھ ہی مالی سال 2020 کے اختتام تک انسانی ہمدردی کے امداد کے طور پر تقریبا 20 کروڑ ڈالر کی امداد دے کر روہنگیا اور بنگلہ دیش کے لیے امریکہ کی حمایت کا اعادہ کرنا تھا۔ اس طرح اگست 2017 کے بعد سے اس بحران کے جواب میں امریکہ کا مجموعی عطیہ تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔

امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ اسٹیفن بیگن نے کہا ہے کہ اس کانفرنس سے بحران کو حل کرنے کے لیے بین الااقوامی کوشش اجاگر ہوتی ہے۔ انھوں نے برطانیہ، یورپی یونین اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ ورچوئل کانفرنس کی میزبانی کی۔

انھوں نے کہا کہ بحران کے طویل المدت اور پائیدار حل کے لیے اپنی کوششوں کو دو چند کرتے ہوئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم لوگوں کی اہم ضروریات پر توجہ دیں۔ انھوں نے روہنگیا لوگوں کی رضاکارانہ، محفوظ، باوقار اور مستقل وطن واپسی کے لیے سازگار ماحول بنانے کی خاطر برما کی حکومت کے کردار کو اجاگر کیا۔

نائب وزیر خارجہ بیگن نے کہا کہ پہلے قدم کے طور پر برما کے لیے لازم ہے کہ وہ متاثرہ برادریوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بلا روک ٹوک اور پائیدار رسائی کی اجازت دے۔ ہم اس کوشش میں برابر آپ کے شریکِ کار ہوں گے۔ نائب وزیر خارجہ بیگن نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ راخائین کی ریاست میں تشدد کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کے لیے مزید اقدامات لازمی ہیں، جن میں ہتھیاروں اور منشیات کی ناجائز تجارت کے خاتمے کی خاطر تعاون شامل ہے جن کی وجہ سے ریاست میں تشدد اور عدم استحکام ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ رہنماؤں کی حیثیت سے ہم بنگلہ دیش اور خطے میں دوسرے مقامات پر روہنگیا پناہ گزینوں اور برما میں اندرونِ ملک بے گھر ہونے والوں کی حالتِ زار کے بارے میں بین الاقوامی توجہ کو اجاگر کر رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو جو وہاں رونما ہونے والی ہولناک زیادتیوں کے ذمہ دار ہیں، جواب دہ بنائیں گے اور ایسی پالیسیاں تشکیل دینے میں جن سے روہنگیا برادری کے مستقبل کے متعلق آپ کے فیصلوں کی عکاسی ہوتی ہو، مل کر کام کریں گے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG