امریکہ نے انتہائی سخت الفاظ میں عراق کے کرد علاقے میں حالیہ حملے کی مذمت کی ہے۔ ایران کی پاسداران انقلاب اسلامی نے کھلے عام اس حملے کی ذمّہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ان کا نشانہ اسرائیل کے اسٹرٹیجک مراکز تھے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ایک بیان میں کہا کہ اس حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے لکھا کہ امریکہ عراقی وزیرِاعظم کاظمی اور کردستان کے علاقے کے لیڈر وں، صدر نوشیروان بارزانی اور وزیراعظم مسرور بارزانی کے ساتھ عراق اور اس کے کردستانی علاقے کی خود مختاری پر حملے کی مذمت میں کھڑا ہے۔ ہم ایران کو جواب دہ ٹھہرانے کے سلسلے میں عراق کی حکومت کی حمایت کریں گے۔
امریکی سینیٹ کے روبرو شہادت دیتے ہوئے امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل کیتھ میکنزی نے کہا کہ ایران مسلسل امریکی مفادات اور علاقائی (مشرقِ وسطیٰ) سلامتی کے لیے سب سے بڑاخطرہ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران درپردہ اور اپنے ہرکاروں کے ذریعے عرب جزیرہ نما کے راستے یمن، پورے عراق، شام اور لبنان میں کشیدگی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔
جنرل میکنزی نے ایران کی بیلسٹک میزائل کی بڑھتی ہوئی تعداد اور صلاحیت، ڈرون پروگرام، طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز اور زمینی حملہ کرنے والے میزائل پروگرام پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ عراق پر حالیہ میزائل حملے سمیت پورے علاقے میں ایران کی عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں سے عیاں ہوتا ہے کہ ایران اور امریکہ دونوں کی جوہری معاہدے میں واپسی فوری طور پر مطلوب ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایران کی طرف سے ہر قسم کے چیلنج جو اس وقت درپیش ہیں یا جن کا سامنا کرنے والے ہیں، چاہے در پردہ جنگوں میں مدد ہو یا دہشت گرد گروپوں کی حمایت یا بیلسٹک میزائل پروگرام۔ ان سب کا مقابلہ کرنا اور بھی مشکل ہوجائے گا اگر ایران نے ایٹمی ہتھیار حاسل کر لیے۔
ترجمان نے کہا کہ اولین طور پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو بوتل میں بند کر دیں اور اس چیلنج کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس کے بعد ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ان دیگر چیلنجوں سے مؤثر طور پر نمٹ سکیں گے، جو ایران ہمارے لیے کھڑے کر رہا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**