شام میں بشار الاسد کی حکومت نے 13 سال قبل پرامن مظاہروں کے جواب میں وحشیانہ کارروائی کی تھی۔ حکومت نے شہریوں کو حراست میں لیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ہلاک کیا گیا ۔( حکومت نے ) اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کو مسترد کر دیا تھا۔
یہ جنگ 50 ہزار سے زیادہ جانیں لے چکی ہے۔ لاکھوں شامی باشندے ملک کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں یا پھر پڑوسی ممالک میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے قائم مقام نائب سفیر جیفری ڈی لارینٹس کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد شامی افراد کے بارے میں معلومات نہیں ہیں یا پھر وہ حکومت کی جیلوں یا حراستی مراکز میں بند ہیں۔
لاپتا افراد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ حکومت یا تنازعے میں شامل داعش جیسے دہشت گرد گروہوں اور دیگر فریقوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔
شام اپنی سرحدوں سے باہر غیر قانونی منشیات کے ساتھ خطے میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔ اسد حکومت نے روس کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ شام کے ذریعے لاجسٹکس استعمال کرتے ہوئے افریقہ کو غیر مستحکم سرگرمیوں کا ہدف بنائے۔
سفیر جیفری ڈی لارینٹس نے کہا ہے کہ اس (موجودہ) تناظر میں امریکہ اسد ( حکومت ) کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا اور ہم نے دوسروں کی جانب سے ایسے اقدام کی سختی سے حوصلہ شکنی کی ہے۔
اُن کے بقول ہم اسد پر عائد اپنی پابندیاں نہیں اٹھائیں گے اور نہ ہی حقیقی، جامع اور پائیدار اصلاحات اور سیاسی عمل میں پیش رفت کے بغیر تعمیر نو کی حمایت کریں گے۔
ہم ملک گیر سطح پر جنگ بندی اور غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی اور اسد حکومت کے نیک نیتی کے ساتھ سیاسی عمل میں رابطہ کاری کے لیے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**