Accessibility links

Breaking News

یوم مارٹن لوتھر کنگ 2022


ہر سال جنوری کے تیسرے پیر کو امریکی ریورینڈ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی یاد تعظیم کے ساتھ مناتے ہیں۔ ڈاکٹر کنگ الاباما کی جنوبی ریاست سے تعلق رکھنے والے ایک بپٹسٹ پادری تھے اور امریکہ میں نسلی تفریق کے خلاف تحریک کے ایک رہنما تھے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو پندرہ جنوری کواپنی تیرانویں سال گرہ منارہے ہوتے۔

ایک ایسے وقت میں جب افریقی امریکیوں کے خلاف جو امریکہ کے بعض علاقوں میں عملی طور پر نسلی تفریق کے نظام کو تبدیل کرنا چاہتے تھے، ڈاکٹر کنگ نے شہری حقوق کی تحریک کی قیادت کی جس کے دوران عدم تشدد پر مبنی احتجاج پر توجہ دی گئی۔ مہاتما گاندھی کے گہرے اثرات سے متاثر ہوکر ڈاکٹر کنگ نے چھ نکات پر مشتمل اصولوں کا تعین کیا، جنھوں نے شہری حقوق کے مظاہرین کی رہنمائی کی جب کہ وہ بڑے پیمانے پر بائیکاٹ، دھرنے، پرامن مارچ اور شہری نافرمانی کے حوالے سے عدم تشدد پر مبنی دوسری کارروائیاں کررہے تھے۔ انھوں نے اس کی تفصیل اپنی کتاب اسٹرائیڈ ٹو ورڈز فریڈم میں بیان کی ہے۔

پہلی بات جو کہی گئی ہے وہ یہ کہ عدم تشدد جرات مند لوگوں کے لیے ایک طریقہ زندگی ہے اور بدی کی مدافعت ہے۔ دوسری بات یہ کہ عدم تشدد سے دوستی اور افہام و تفہیم کی دعوت ملتی ہے اور اس سے مفاہمت حاصل ہوتی ہے۔

دوسرے یہ کہ عدم تشد لوگوں کو نہیں بلکہ ناانصافی کو شکست دینے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے کہ اس سے اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ بدی کی کارروائی کرنے والے افراد برے نہیں ہوتے بلکہ وہ خود بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔

اگلا اصول یہ ہے کہ مصائب لوگوں کو تعلیم سے بہرہ مند کرسکتے ہیں اور ان میں تبدیلی لاسکتے ہیں اور بغیر کسی جوابی ردِعمل کے لوگ اسے برادشت کرتے ہیں۔ مصائب کا یہ تعلیمی پہلو ہے اور اس میں تبدیلی لانے کے امکانات موجود ہیں۔

پانچویں اصول کے مطابق عدم تشدد نفرت کے بجائے محبت کا انتخاب کرتا ہے۔ عدم تشدد سے متعلق چھٹا اصول یہ بتاتا ہے کہ دنیا انصاف کا ساتھ دیتی ہے۔

اپنی موت سے ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ پہلے انھوں نے اعلان کیا کہ ہم فاتح ہوں گے اس لیے کہ اخلاق کا آفاقی دائرہ طویل تو ہوسکتا ہے لیکن اس کا جھکاؤ انصاف کی جانب ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کنگ اور شہری حقوق کی ان کی تحریک کی سب سے بڑی کامیابی 1964 میں ظاہر ہوئی جب شہری حقوق کے ایکٹ کی منظوری دی گئی جس کے نتیجے میں عام جگہوں پر نسلی تفریق کوغیر قانونی قرار دے دیا گیا اور رنگ و نسل، مذہب، صنف یا قومی حیثیت کی بنیاد پر روزگار کے معاملے میں امتیاز بھی ختم کردیا گیا۔

ڈاکٹر کنگ کی عمر اس وقت 39 سال تھی جب چار اپریل 1968 کو ایک قاتل کی گولی نے ان کی جان لے لی۔ تاہم ان کی میراث زندہ ہے۔ دس سال کے عرصے میں نسلی تفریق سے متعلق قوانین منسوخ کردیے گئے اور اب امتیازی سلوک قابل نفریں امر اور قانونی طور پر قابلِ سزا جرم ہے۔

ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی زندگی کا تجزیہ خود ان کے اپنے فرمان کے آئینے میں کیا جاسکتا ہے جب انھوں نے کہا تھا کہ کسی فرد کی حیثیت کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ وہ آرام اور آسانی کے لمحات میں کہاں کھڑا ہوتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ چیلنج اور تنازعے کے وقت کیا مؤقف اختیار کرتا ہے۔

ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG