Accessibility links

Breaking News

چین لاپتا پنچن لاما کا پتہ بتائے


تبت کے لاپتا پنچن لاما
تبت کے لاپتا پنچن لاما

اب اس بات کو 27 سال بیت گئے ہیں جب عوامی جمہوریہ چین کے حکام نے تبت کے ایک چھ سالہ بچّے اور اس کے خاندان کو اغوا کر لیا تھا۔ اس سے تین روز پہلے مئی 1995 میں تبّت کے بودھ روحانی پیشوا دلائی لاما نے گدھون چورکی نیما کو گیارہواں پنچن لاما نامزد کیا تھا۔ یہ ایک اعتبار سے تبت میں بدھ مت کی دوسری سب سے بڑی قابلِ احترام شخصیت شمار کی جاتی ہے۔ اس اغوا کے بعد چین نے سیاسی طور پر من پسند ایک دوسرے لڑکے کو پنچن لاما نامزد کر دیا تھا۔

چھ سال کی عمر میں گدھون چورکی نیما دنیا کا کمسن ترین سیاسی قیدی تھا۔ اغوا کے بعد سے نہ وہ اور نہ ہی اس کا خاندان کبھی منظرِ عام پر نہیں آئے۔ نہ ہی ان کا اتہ پتہ کسی کو معلوم ہے۔

اس سال پچیس اپریل کو اس بچّے کی 33 ویں سالگرہ کے موقعے پر امریکہ نے چینی حکام سے کہا کہ وہ فوری طور پر گدھون چورکی نیما کے اتے پتے اور اس کی خیریت کے بارے میں آگاہ کرے۔ محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پنچن لاما کو اپنے انسانی حقوق اور اپنی بنیادی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کی مکمل اجازت دی جانی چاہیے۔

المیہ یہ ہے کہ چین کی کیمونسٹ پارٹی کی حکمرانی میں تبّت کے بہت سے باشندوں کو ان کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں محکمۂ خارجہ کی تازہ ترین رپورٹ میں چین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ "بیرونی مبصرین نے حاصل معلومات کی چھان بین کی اور مئی کے اواخر میں باور کرایا کہ تبت کے 500 سے 2000 تک باشندوں کو چین کی حکومت نے یا تو زیرِ حراست رکھا ہوا ہے، یا قید میں ڈالا ہوا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔"

محکمۂ خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نسلی اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے سلسلے میں چین کی سرکاری پالیسی کے تحت تبت کی روایتی ثقافت، رہن سہن اور رسم و رواج کو مسلسل مٹایا جا رہا ہے۔"

محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ "امریکہ اہلِ تبت کی مذہبی آزادی، ان کے منفرد مذہبی، ثقافتی اور لسانی تشخص کی حمایت کرتا ہے جس میں ان کا یہ حق بھی شامل ہے کہ وہ دلائی لاما اور پنچن لاما جیسے اپنے مذہبی پیشواؤں کو بلا سرکاری مداخلت اپنے مذہبی عقائد کے مطابق خود منتخب کر سکیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG