Accessibility links

Breaking News

عالمی سطح پر خوراک کا بحران کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

آج ہمیں بھوک کے ایک ایسے عالمی بحران کا سامنا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق خوراک کے شدید عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے یا اس کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد دو برسوں کے دوران 53 ممالک میں 135 ملین سے بڑھ کر79 ممالک میں 345 ملین تک پہنچ گئی ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے عالمی غذائی تحفظ کے خصوصی ایلچی ڈاکٹر کیری فاؤلر کے مطابق دو بڑے واقعات اس بحران کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر فاؤلر کہتے ہیں کہ ’’یقینی طور پر آب و ہوا ان میں سے ایک ہے۔ یہ مسلسل532 واں مہینہ ہے جب اس مہینے کے دوران عالمی اوسط درجہ حرارت 20ویں صدی کی اوسط سے زیادہ ہو گیا ہے۔

اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ پچھلے دو سالوں سے ہم نے لا نینا کے ٹھنڈے موسم کے رجحان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن 2023 میں یہ صورتِ حال برقرار نہیں رہ سکی۔

ڈاکٹر فاؤلر کا کہنا ہے کہ ’’اب ایل نینو کا دور ہے جو گرمی کا رجحان رکھتا ہے اور عام طور پر ٹراپیکل آب وہوا رکھنے والے ممالک کو معتدل درجہ حرارت رکھنے والے ممالک سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ زراعت کے لیے معمول کے مطابق نہیں ہے۔

ڈاکٹرفاؤلر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روس کی جنگ خوراک کے عدم تحفظ کا دوسرا بڑا محرک ہے جو خاص طور پر ولادیمیر پوٹن کے بحیرہ اسود کے اناج معاہدے سے دست بردار ہونے کے فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔

فاؤلرکا سوال ہے کہ ’’روس کے اس حملے کے یوکرینی زراعت اور برآمدات کی کمی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔؟ اس کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ ’’یوکرینی اناج کے کلیدی15 درآمد کنندگان میں سے متعدد ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں میں نشوو نما کی کمی کی شرح بہت زیادہ ہے۔

کرہ ارض کے زیادہ تر ممالک خوراک درآمدکرتے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ 196 میں سے 131 ممالک خوراک درآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

ڈاکٹرفاؤلر نے کہا کہ ’’دنیا کے جنوبی خطوں میں واقع ممالک کو زرعی خوراک کے اپنے نظام کو تیار کرنے کے لیے واقعی ہماری مدد درکار ہے۔ انہیں خوراک کے تحفظ کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ زیادہ امید افزا امکانات میں سے ایک ایڈیپٹڈ کراپس اینڈ سوئیل پروگرام ہےجسے اقوام متحدہ اور افریقی یونین کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تعاون سے تشکیل دیا گیا ہے۔

ڈاکٹرفاؤلر نے کہا کہ ’’ہم افریقی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان روایتی اور مقامی فصلوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جوافریقہ میں خوراک کی غذائیت میں اضافے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہم اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی والے افریقہ میں ان کی کارکردگی کیسی ہے جس کا ہم پہلے ہی جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ ان فصلوں کے لیے بہتری کے پروگرام میں افریقی ممالک کے ساتھ کام کرنے کی بنیاد فراہم کرے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ ’’ہم خوراک کے عدم تحفظ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ایک طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کر رہے ہیں۔ ہمیں بازاروں سے اناج اور خوراک ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ان ممالک میں خوراک کے تحفظ کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG