کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق ایک سنگِ میل عبور

فائل فوٹو

امریکہ نے سات جولائی کو اعلان کیا کہ اس نے اپنے متروک کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو محفوظ طور پر ٹھکانے لگانے کا کام مکمل کر لیا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ تیکنیکی چیلنج تھا جس کو پوارا کرنے میں 30 سال سے زائد عرصہ لگا۔ امریکہ نے یہ اقدام اٹھاتے ہوئے ایک اہم ذمے داری پوری کی جواس پر 1997 کے کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے دستخط کنندہ کے طور پر عائد تھی۔

صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ میں متروک اسلحے کے ذخائر کے مکمل خاتمے کے بعد ’’ہم ایک ایسی دنیا سے ایک قدم قریب ہو گئے ہیں جو کیمیائی ہتھیاروں کی ہولناکیوں سے پاک ہے۔‘‘

کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق تنظیم (او پی سی ڈبلیو) نے تصدیق کی ہے کہ امریکی ذخیرے کے خاتمے کے ساتھ ریاستی پارٹیوں کے تمام اعلان کردہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے مکمل طور پر ختم کر دیے گئے ہیں۔


امریکہ کی وزارت دفاع کے حصول اور پائیداری کے شعبے کے لیے معاون وزیر ولیم لاپلانٹے نے توجہ دلائی ہے کہ ’’یہ پہلا موقع ہے جب کسی بین الاقوامی ادارے نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے مکمل ذخیرے کی تباہی کی تصدیق کی ہے۔‘‘

کیمیائی ہتھیار سب سے پہلے پہلی عالمی جنگ میں استعمال کیے گئے تھے۔ ان کے استعمال کے ہولناک نتائج میں دم گھٹنے، جسم کے جل جانے اور سانس رکنے جیسے مسائل نے مختلف ملکوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کے استعمال، پیداوار اور ذخیرہ اندوزی پر پابندی لگانے کے لیے اکٹھے ہوں۔

اگرچہ اعلان کردہ ذخیروں کا خاتمہ ایک اہم کامیابی ہے تاہم کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

چار ممالک نے کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے اور ان ریاستوں کی طرف سے ان کے غیر اعلانیہ کیمیائی ہتھیار بدستور ایک اہم خطرہ ہیں۔

شام میں اسد حکومت نے حالیہ برسوں میں بارہا اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے حالانکہ وہ دستخط کر چکا ہے۔ اس کا اتحادی روس بھی اس کنونشن پر دستخط کرچکا ہے۔

تاہم اس نے نہ صرف شام کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر جوابدہی سے بچایا بلکہ خود روس نے روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی پر حملوں میں دو مواقع پر نوویچوک نرو ایجنٹ نامی کیمیائی مادوں کا استعمال کیا۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’ میں باقی ممالک کو کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا رہتا ہوں تاکہ کیمیائی ہتھیاروں پر عالمی پابندی مکمل طور پر ممکن ہو سکے ۔ روس اور شام کو کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی پاسداری کرنا چاہیے اور اپنے غیر اعلانیہ پروگراموں کو تسلیم کرنا چاہیےجن کا وہ حملوں کے لیے ڈھٹائی سے استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ ’’ہم کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم کا ساتھ دیتے رہیں گے تاکہ دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے، ان کی پیداوار اور استعمال کو روکنے کی کوشش جاری رہے اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کرہم اس وقت تک اپنا کام نہیں روکیں گے جب تک کہ دنیا کو اس لعنت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا نہ دلا دیں ۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**