تہران میں ایک سفاکانہ موت

فائل فوٹو

ایران کے صوبہ کردستان سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ مہسا امینی 13 ستمبر کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہران گئی تھیں۔ وہاں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ میٹرو سے باہر نکلتے ہوئے مہسا کو نام نہاد اخلاقیات پولیس یا "گشت ارشاد " کی جانب سے، مبینہ طور پرغیرمناسب طور پرحجاب پہننے کے الزام میں گرفتار کر کے حراستی مرکز لے جایا گیا۔ تین دن بعد انہیں مردہ قراردے دیا گیا۔ ریاست سے وابستہ میڈیا نے دعویٰ کیا کہ امینی کو دل کا دورہ پڑا۔ جب کہ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ بالکل صحت مند تھیں۔

ایران میں انسانی حقوق کی ممتازاین جی او "سینٹر فار ہیومن رائٹس" کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرہادی غائمی نے کہا کہ امینی کو "ریاست کے جبری حجاب کے قانون کی آڑ میں گرفتار کیا گیا اورکچھ ہی دیربعد ان کی موت واقع ہو گئی۔ حکومت ان کی موت کی ذمّہ دارہے۔ ایران میں عشروں سے جاری اس امتیازی، غیر انسانی قانون کی آڑ میں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، حراست میں رکھا جاتا ہے یا انہیں دیگر طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے۔

حکام کی جانب سے امینی کے ساتھ ناروا سلوک پرایران کے متعدد شہروں بشمول تہران اورصوبہ کردستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ پرامن مظاہرین کوطاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی نے مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے کم از کم 54 مظاہرین کی نشان دہی کی ہے۔

پولیس حراست میں امینی کی خوفناک موت کی امریکہ، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے مذمت کی تھی۔

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ "اس کے بجائے کہ امریکہ اورایرانی عوام اس کا ماتم کرتے، مہسا امینی کو آج زندہ ہونا چاہیے تھا۔ ہم ایرانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خواتین پر منظم ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرے اور پرامن احتجاج کی اجازت دے۔

ایک پریس بریفنگ میں، قومی سلامتی کے مشیرجیک سلیوان نے کہا، "[امینی کی موت] ایک حکومت کے مکمل جبراوربربریت کی عکاس ہے جہاں ایک عورت محض اپنا بنیادی حق استعمال کرتے ہوئے اس طرح موت کے منہ میں جا سکتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہم ایران میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس پرشدید اعتراض کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اوروہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایسا معاشرہ نہیں ہے جس میں وہ رہنا چاہتے ہیں۔

قومی سلامتی کے مشیر سلیوان نے اعلان کیا کہ "یہ حقوقِ انسانی کے عالمی اعلامیہ کے تحت کسی بھی ملک کی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔اور یہ وہ چیز ہے جس کے خلاف امریکہ سخت اور غیر واضح طور پر آواز اٹھائے گا۔"

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**